ترک ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہےکہ داعش کے خلاف نبردآزما شامی باغیوں کی مدد کے لیے ترکی نے صوبہٴ خالص سے الرائی کے شمالی شامی گاؤں کی جانب مزید توپیں روانہ کی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ اِن میں کم از کم 20 ٹینک، فوج کی نقل و حمل کی چار بکتربند گاڑیاں، ٹرک اور دیگر عسکری گاڑیوں نے سرحد پار کی۔ 24 اگست کو جب ترکی نے خودساختہ ’یوفریٹس شیلڈ‘ نامی کارروائی کا آغاز، جس میں فری سیریئن آرمی کے دستے اُس کے ہمراہ ہیں، ترکی نے یہ دوسری بار دراندازی کی ہے۔
رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ تب سے باغی جرابلوس کی ترک سرحد کے قریب دیہات پر قبضہ کرنے، اور ساتھ ہی کوبانبے کا مغربی ضلع داعش سے واپس کرانے کا کام کر رہے ہیں۔
ترکی کی پشت پناہی والی شامی فوج کے دستے ایک مدت سے امریکی حمایت یافتہ کُرد پیپلز پراٹیکشن یونيٹس (وائی پی جی)کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔
دریں اثنا، ترک صدر رجب طیب اردوان نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ چین کے ہینگزو کے ساحلی شہر میں سال 2016 کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے والےگروپ 20 کے ممالک طویل مدت سے سرپیش دہشت گردی کے معاملے پر گفتگو کریں گے۔
گذشتہ سال ترکی میں ہونے والے جی 20 کےسربراہ اجلاس کے بعد تارکینِ وطن کا بحران اور انسدادِ دہشت گردی ترکی کی اولین ترجیحات بن چکی ہیں۔ اردوان نے یہ بات ایک انٹرویو میں چین کے ’سی سی ٹی وی‘ کی نامہ نگار کو بتائی، یہ کہتے ہوئے کہ تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف اصولی مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔
اردوان ہفتے کے روز سال 2016 کے جی 20 سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے ہینگزو پہنچے، جہاں اُن کا چین کے صدر ژی جِن پنگ نے خیرمقدم کیا۔
اُنھوں نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون کے ساتھ بند کمرے کے اجلاس میں شرکت کی۔
پندرہ جولائی کو ترک فوج کی طرف سے بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد، یہ اُن کا بیرونِ ملک پہلا دورہ ہے۔
اردوان نے براہِ راست ناکام بغاوت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ سرمایہ کاری اور جدت کے موضوع پر مرتکز سربراہ اجلاس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ چین ترکی کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔
سربراہ اجلاس کے دوران، توقع ہے کہ اردوان امریکی صدر براک اوباما اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کریں گے۔