بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ کی چار ماہ کی حاملہ طالبہ صفورہ زرگر کی رہائی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے جب کہ ان کی رہائی کے لیے بھارت سے لے کر امریکہ تک آواز اٹھنے لگی ہے۔
صفورہ زرگر شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) کی مخالفت میں تحریک میں پیش پیش رہی ہیں۔ انہیں 10 اپریل کو سی اے اے مخالف احتجاج کے دوران ایک سڑک بند کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں عدالت سے فوراً ہی ضمانت مل گئی تھی لیکن پولیس نے اسی روز انہیں انتہائی خطرناک قانون اَن لافل ایکٹیوٹز پریوینشن ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت دہلی فسادات کے سلسلے میں گرفتار کر لیا تھا۔
بنگلور کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے 66 اراکین نے ایک بیان جاری کرکے صفورہ زرگر کی گرفتاری کی مذمت کی ہے جب کہ ان کی اور جیل میں بند دیگر افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ صفورہ اور دیگر طلبہ کرونا وائرس کے عروج کے وقت انتہائی بھیڑ والی تہاڑ جیل میں بند ہیں جب کہ دہلی میں تشدد بھڑکانے والے ایک مرکزی وزیر سمیت دیگر ذمہ داران آزاد گھوم رہے ہیں۔
دوسری جانب امریکن بار ایسوسی ایشن میں انسانی حقوق کے سینٹر فار ہیومن رائٹس نے بھی صفورہ کی گرفتاری کی مذمت کی۔
سینٹر فار ہیومن رائٹس نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ صفورہ کی گرفتاری بین الاقوامی معاہدوں کے منافی ہے۔ بھارت ان معاہدوں کا حصہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ امریکن بار ایسوسی ایشن امریکہ میں وکلا اور قانون کے طلبہ کی سب سے پرانی اور بڑی تنظیم ہے۔
سینٹر فار ہیومن رائٹس نے بھارت کی عدالتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کرونا وائرس کے دوران اخلاقی و قانونی ذمہ داری پوری کرے اور صفورہ کی فوری رہائی کا حکم دے۔
اس سے قبل پیرس میں قائم انسانی حقوق کے ایک ادارے انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس نے صفورہ اور دیگر طلبہ کی گرفتاری کو حکومت کا من مانا اقدام قرار دیا تھا جب کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ کو ایک خط میں ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) کے ساتھ ساتھ بھارت کی انسانی حقوق کی 1100 خواتین کارکن اور آٹھ سیاسی جماعتیں بھی صفورہ اور دیگر طلبہ کی رہائی کا مطالبہ کر چکی ہیں۔
نئی دہلی کی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن شبنم ہاشمی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور پولیس سی اے اے مخالف تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کے بقول پولیس دہلی فسادات کا بیانیہ تبدیل کر رہی ہے جب کہ سی اے اے مخالف تحریک چلانے والوں کو فساد کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے جب کہ اصل ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔
انہوں نے صفورہ زرگر کی گرفتاری کی مذمت کی جب کہ حکومت سے انہیں رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
شبنم ہاشمی نے کہا کہ صفورہ کو ضمانت نہ دینا ان کے ساتھ بہت ناانصافی ہے۔ جو لوگ حکومت چلا رہے ہیں وہ تمام اداروں کی آزادی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ سپریم کورٹ بھی اب حکومت کے زیرِ اثر ہے۔
صفورہ کا تعلق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر ہیں۔ وہ جامعہ کی سی اے اے مخالف تحریک میں میڈیا کوآرڈینیٹر تھیں۔
صفورہ زرگر چار ماہ کے حمل سے ہیں۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کی مخالفت کرنے والوں نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر صفورہ زرگر کے خلاف انتہائی منفی مہم بھی چلائی تھی۔
علاوہ ازیں پولیس نے انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن ہرش مندر کا نام دہلی فسادات سے متعلق چارج شیٹ میں شامل کیا ہے۔
ملک کے 160 ماہرینِ تعلیم، انسانی حقوق کے کارکنوں اور فنکاروں نے پولیس کی اس کارروائی کی مذمت کی ہے جب کہ ان کا نام فردِ جرم سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔