پبلک پراسیکیوٹر نے "پرتشدد کاروائیوں" میں حصہ لینے کے الزام میں تفتیش کے لیے معزول صدر مرسی کو مزید 15 روز کے لیے حراست میں رکھنے کا حکم جاری کیا ہے۔
واشنگٹن —
مصر میں پبلک پراسیکیوٹر نے معزول صدر محمد مرسی کی مدتِ حراست میں مزید 15 روز کا اضافہ کردیا ہے جب کہ ذرائع ابلاغ میں آنےو الی اطلاعات کے مطابق عبوری حکومت جلد ہی ملک کے سابق صدر حسنی مبارک کو جیل سے رہا کرنے والی ہے۔
پیر کو پبلک پراسیکیوٹر نے "پرتشدد کاروائیوں" میں حصہ لینے کے الزام میں تفتیش کے لیے معزول صدر مرسی کو مزید 15 روز کے لیے حراست میں رکھنے کا حکم جاری کیا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ ہفتے ایک عدالت نے ایک دوسرے مقدمے میں معزول صدر کی حراست کی مدت میں 30 روز کا اضافہ کرنے کے احکامات دیے تھے۔
محمد مرسی گزشتہ سال ہونے والے مصر کی تاریخ کے پہلے شفاف انتخابات کےنتیجے میں ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے تاہم مصر کی فوج نے رواں برس تین جولائی کو ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
اسلام پسند محمدمرسی اپنی معزولی کے بعد سے فوج کی تحویل میں ہیں اور انہیں نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔ فوج کی جانب سے تشکیل دی جانے والی عبوری حکومت نے معزول صدر کے خلاف قتل، جاسوسی، جیل سے فرار، مظاہرین پر تشدد اور ملک دشمنی سمیت کئی الزامات کے تحت تحقیقات شروع کررکھی ہیں۔
مصر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'مینا' کے مطابق جس نئے مقدمے میں پراسکیوٹر نے معزول صدر کو حراست میں لینے کا حکم جاری کیا ہے اس کا تعلق گزشتہ برس دسمبر میں صدارتی محل کے باہر ہونے والے مظاہروں سے ہے۔
پراسیکیوٹر کے دفتر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ محمد مرسی سے اپنے دفتر کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین پر تشدد کرانے کے الزام کی تفتیش کی جائے گی۔
دوسری جانب مصر کے سابق مطلق العنان صدر حسنی مبارک کے وکیل نے کہا ہے کہ ان کے موکل کو "بہت جلد" جیل سے رہا کردیا جائے گا۔
حسنی مبارک کو 2011ء میں چلنے والی عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا جس کے بعد سے وہ مختلف الزامات کے تحت حراست میں ہیں۔
مصر پر مسلسل 30 برسوں تک حکمرانی کرنے والے سابق فوجی سربراہ کی عمر 85 برس ہے اور ان پر بدعنوانی، اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں کے شرکا پر تشدد اور ان کے قتل کے احکامات جاری کرنے سمیت کئی الزامات ہیں۔
تاہم حسنی مبارک کے ایک وکیل فرید الدیب نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق صدر کے خلاف بدعنوانی کا اب صرف ایک مقدمہ رہ گیا ہے جسے ان کے بقول "بڑے آرام سے طے کرلیا جائے گا"۔
فرید الدیب نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ سابق صدر کی رہائی میں بعض معمول کے انتظامی معاملات حائل ہیں جنہیں آئندہ 48 گھنٹوں میں طے کرلیا جائے گا اور امکان ہے کہ حسنی مبارک رواں ہفتے کے اختتام تک جیل سے باہر آجائیں گے۔
یاد رہے کہ اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں کے شرکار کے قتل کے احکامات جاری کرنے کا الزام ثابت ہونے پر مصر کی ایک عدالت نے گزشتہ برس حسنی مبارک ااور ان کے وزیرِ داخلہ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
تاہم اس سزا کےخلاف استغاثہ اور ملزمان کے وکلا نے اپیلیں دائر کردی تھیں جن کی سماعت ابھی ہونا باقی ہے۔ لیکن مصر کے فوجداری قانون کے مطابق اپیلوں کے فیصلے تک سابق صدر کا قید میں رہنا ضروری نہیں۔
پیر کو پبلک پراسیکیوٹر نے "پرتشدد کاروائیوں" میں حصہ لینے کے الزام میں تفتیش کے لیے معزول صدر مرسی کو مزید 15 روز کے لیے حراست میں رکھنے کا حکم جاری کیا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ ہفتے ایک عدالت نے ایک دوسرے مقدمے میں معزول صدر کی حراست کی مدت میں 30 روز کا اضافہ کرنے کے احکامات دیے تھے۔
محمد مرسی گزشتہ سال ہونے والے مصر کی تاریخ کے پہلے شفاف انتخابات کےنتیجے میں ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے تاہم مصر کی فوج نے رواں برس تین جولائی کو ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
اسلام پسند محمدمرسی اپنی معزولی کے بعد سے فوج کی تحویل میں ہیں اور انہیں نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔ فوج کی جانب سے تشکیل دی جانے والی عبوری حکومت نے معزول صدر کے خلاف قتل، جاسوسی، جیل سے فرار، مظاہرین پر تشدد اور ملک دشمنی سمیت کئی الزامات کے تحت تحقیقات شروع کررکھی ہیں۔
مصر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'مینا' کے مطابق جس نئے مقدمے میں پراسکیوٹر نے معزول صدر کو حراست میں لینے کا حکم جاری کیا ہے اس کا تعلق گزشتہ برس دسمبر میں صدارتی محل کے باہر ہونے والے مظاہروں سے ہے۔
پراسیکیوٹر کے دفتر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ محمد مرسی سے اپنے دفتر کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین پر تشدد کرانے کے الزام کی تفتیش کی جائے گی۔
دوسری جانب مصر کے سابق مطلق العنان صدر حسنی مبارک کے وکیل نے کہا ہے کہ ان کے موکل کو "بہت جلد" جیل سے رہا کردیا جائے گا۔
حسنی مبارک کو 2011ء میں چلنے والی عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا جس کے بعد سے وہ مختلف الزامات کے تحت حراست میں ہیں۔
مصر پر مسلسل 30 برسوں تک حکمرانی کرنے والے سابق فوجی سربراہ کی عمر 85 برس ہے اور ان پر بدعنوانی، اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں کے شرکا پر تشدد اور ان کے قتل کے احکامات جاری کرنے سمیت کئی الزامات ہیں۔
تاہم حسنی مبارک کے ایک وکیل فرید الدیب نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق صدر کے خلاف بدعنوانی کا اب صرف ایک مقدمہ رہ گیا ہے جسے ان کے بقول "بڑے آرام سے طے کرلیا جائے گا"۔
فرید الدیب نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ سابق صدر کی رہائی میں بعض معمول کے انتظامی معاملات حائل ہیں جنہیں آئندہ 48 گھنٹوں میں طے کرلیا جائے گا اور امکان ہے کہ حسنی مبارک رواں ہفتے کے اختتام تک جیل سے باہر آجائیں گے۔
یاد رہے کہ اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں کے شرکار کے قتل کے احکامات جاری کرنے کا الزام ثابت ہونے پر مصر کی ایک عدالت نے گزشتہ برس حسنی مبارک ااور ان کے وزیرِ داخلہ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
تاہم اس سزا کےخلاف استغاثہ اور ملزمان کے وکلا نے اپیلیں دائر کردی تھیں جن کی سماعت ابھی ہونا باقی ہے۔ لیکن مصر کے فوجداری قانون کے مطابق اپیلوں کے فیصلے تک سابق صدر کا قید میں رہنا ضروری نہیں۔