'رائٹرز' کے مطابق جمعے کو صدر مرسی کے مخالفین کی جانب سے بھی مظاہروں کا اعلان کیا گیا تھا جس میں عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔
واشنگٹن —
مصر میں فوج کی جانب سے برطرف کیے جانے والے ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کے لاکھوں حامیوں نے جمعے کو ملک کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق محمد مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے ہزاروں حامی جمعے کی نماز کے بعد دارالحکومت قاہرہ، اسکندریہ اور ملک کے کئی دیگر شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے اور فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کیا۔
مظاہروں کے موقع پر ملک بھر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جب کہ دارالحکومت قاہرہ میں فوج کی بھاری نفری تعینات تھی جس نے مظاہرین کو سرکاری دفاتر کی جانب بڑھنے سے روک دیا۔
جمعے کو ہونے والے مظاہروں میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت کے باوجود گزشتہ دنوں کے برعکس فوج اور مظاہرین کے درمیان کوئی بڑی جھڑپ نہیں ہوئی۔
خیال رہے کہ فوج کی جانب سے تین جولائی کو صدر مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مصر میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات اور جھڑپوں میں اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
زیادہ تر ہلاکتیں صدر مرسی کے حامی مظاہرین پر فوجی اہلکاروں کی فائرنگ سے ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں ملک کی سیاسی فضا خاصی کشیدہ ہے۔
رواں ہفتے قاہرہ میں صدر مرسی کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں بھی کم از کم سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
جمعے کو قاہرہ میں مظاہرین کا سب سے بڑا اجتماع مضافاتی علاقے 'النصر سٹی' میں ہوا جہاں 'اخوان المسلمون' کے ہزاروں کارکن صدر مرسی کی بحالی کے لیے گزشتہ تین ہفتوں سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
صدر مرسی کی برطرفی کا سبب بننے والے 30 جون کے احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرنے والی 'تمرد' نامی لبرل تحریک نے 'اخوان المسلمون' کے مقابلے پر جمعے کو بھی ملک گیر مظاہروں کی اپیل کی تھی۔
لیکن برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یہ اپیل ناکام رہی اور جمعے کو صدر مرسی کے مخالفین کی جانب سے ہونےوالے مظاہروں میں عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔
لیکن 'تمرد' کے مظاہروں کو بنیاد بن کر مصر کی اسلام پسند حکومت کا تختہ الٹنے والی فوج نے جمعے کو مظاہرین کے خلاف طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق "مظاہرین کو پیغام دیا کہ ان کے مطالبات پر کان نہیں دھرا جائے گا"۔
جمعے کی نماز کے فوراً بعد مظاہرے کرنے والے صدر مرسی کے ہزاروں حامیوں کے سروں پر قاہرہ کی فضائوں میں مصری فضائیہ کے آٹھ طیاروں نے ایک ساتھ پرواز کی۔
فوجی طیاروں کی پرواز کے بعد مظاہرین کے سروں پر فوجی ہیلی کاپٹر بھی چکر لگاتے رہے۔ ہیلی کاپٹروں انتہائی نچلی پرواز کر رہے تھے اور ان میں سے کئی پر مصر کے قومی پرچم آویزاں تھے۔
جمعے کو ہونے والے مظاہروں سے قبل مصر کے عبوری صدر عدلی منصور نے اپنے نشریاتی خطاب میں "ملک کو بدامنی کی طرف لے جانے والوں کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے" کا عزم ظاہر کیا تھا۔
عبوری صدر نے کہا تھا کہ مصر "ایک فیصلہ کن" دور سے گزر رہا ہے اور ایسے وقت میں ملک کو ان لوگوں سے محفوظ رکھنا ضروری ہے جو ، ان کے بقول، "یہاں تشدد اور خون خرابا برپا کرنا چاہتے ہیں"۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق محمد مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے ہزاروں حامی جمعے کی نماز کے بعد دارالحکومت قاہرہ، اسکندریہ اور ملک کے کئی دیگر شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے اور فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کیا۔
مظاہروں کے موقع پر ملک بھر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جب کہ دارالحکومت قاہرہ میں فوج کی بھاری نفری تعینات تھی جس نے مظاہرین کو سرکاری دفاتر کی جانب بڑھنے سے روک دیا۔
جمعے کو ہونے والے مظاہروں میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت کے باوجود گزشتہ دنوں کے برعکس فوج اور مظاہرین کے درمیان کوئی بڑی جھڑپ نہیں ہوئی۔
خیال رہے کہ فوج کی جانب سے تین جولائی کو صدر مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مصر میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات اور جھڑپوں میں اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
زیادہ تر ہلاکتیں صدر مرسی کے حامی مظاہرین پر فوجی اہلکاروں کی فائرنگ سے ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں ملک کی سیاسی فضا خاصی کشیدہ ہے۔
رواں ہفتے قاہرہ میں صدر مرسی کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں بھی کم از کم سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
جمعے کو قاہرہ میں مظاہرین کا سب سے بڑا اجتماع مضافاتی علاقے 'النصر سٹی' میں ہوا جہاں 'اخوان المسلمون' کے ہزاروں کارکن صدر مرسی کی بحالی کے لیے گزشتہ تین ہفتوں سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
صدر مرسی کی برطرفی کا سبب بننے والے 30 جون کے احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرنے والی 'تمرد' نامی لبرل تحریک نے 'اخوان المسلمون' کے مقابلے پر جمعے کو بھی ملک گیر مظاہروں کی اپیل کی تھی۔
لیکن برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یہ اپیل ناکام رہی اور جمعے کو صدر مرسی کے مخالفین کی جانب سے ہونےوالے مظاہروں میں عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔
لیکن 'تمرد' کے مظاہروں کو بنیاد بن کر مصر کی اسلام پسند حکومت کا تختہ الٹنے والی فوج نے جمعے کو مظاہرین کے خلاف طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق "مظاہرین کو پیغام دیا کہ ان کے مطالبات پر کان نہیں دھرا جائے گا"۔
جمعے کی نماز کے فوراً بعد مظاہرے کرنے والے صدر مرسی کے ہزاروں حامیوں کے سروں پر قاہرہ کی فضائوں میں مصری فضائیہ کے آٹھ طیاروں نے ایک ساتھ پرواز کی۔
فوجی طیاروں کی پرواز کے بعد مظاہرین کے سروں پر فوجی ہیلی کاپٹر بھی چکر لگاتے رہے۔ ہیلی کاپٹروں انتہائی نچلی پرواز کر رہے تھے اور ان میں سے کئی پر مصر کے قومی پرچم آویزاں تھے۔
جمعے کو ہونے والے مظاہروں سے قبل مصر کے عبوری صدر عدلی منصور نے اپنے نشریاتی خطاب میں "ملک کو بدامنی کی طرف لے جانے والوں کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے" کا عزم ظاہر کیا تھا۔
عبوری صدر نے کہا تھا کہ مصر "ایک فیصلہ کن" دور سے گزر رہا ہے اور ایسے وقت میں ملک کو ان لوگوں سے محفوظ رکھنا ضروری ہے جو ، ان کے بقول، "یہاں تشدد اور خون خرابا برپا کرنا چاہتے ہیں"۔