مجمعے میں موجود افراد کا کہنا تھا کہ محمد مورسی کے حامی انہیں اقتدار میں واپس لانے اور مصر کی قومی سلامتی کی حفاظت کے لیے اپنا خون تک بہانے کو تیار ہیں۔
واشنگٹن —
جمعے کی رات قاہرہ میں حکومت سے بے دخل کیے جانے والے صدر مورسی کے ہزاروں حامی، عبوری حکومت کی جانب سے احتجاجی کیمپس بند کرنے کی دھمکیوں کے باوجود سڑکوں پر نکل آئے اور مورسی کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
مجمعے میں موجود افراد کا کہنا تھا کہ محمد مورسی کے حامی انہیں اقتدار میں واپس لانے اور مصر کی قومی سلامتی کی حفاظت کے لیے اپنا خون تک بہانے کو تیار ہیں۔
مجمعے میں شامل ایک فرد وائل عبدل منعم کا کہنا تھا کہ، ’میں اس احتجاج کا حصہ اس لیے بنا ہوں کیونکہ میں اپنے ووٹ کا دفاع کرنا چاہتا ہوں جو میں نے محمد مورسی کو دیا تھا۔ میں اپنے ووٹ کے لیے لڑوں گا، میں اپنے بچوں کے لیے لڑوں گا۔ یہ شرمناک بات ہے کہ فوجی لیڈر ال سسی نے ہمارے ووٹ کو طاقت کے بل پر چھینا ہے۔‘
گذشتہ ایک ماہ کے دوران جب سے صدر مورسی کو جبری طور پر اقتدار سے الگ کیا گیا ہے، تقریباً 200 افراد کو، جن میں سے اکثریت محمد مورسی کے حامیوں کی ہے، قتل کیا جا چکا ہے۔
مصر میں عبوری حکومت کے نائب صدر محمد البرادی نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصری حکمران خون خرابے سے گریز برتنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سختی سے پیش آنے سے کوئی حل نہیں نکلے گا۔
البرادی نے یہ بھی کہا کہ حالات بہتر ہونے پرحکومت اخوان المسلمین کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتی ہے۔
امریکی حکومت نے اپنا ایک وفد قاہرہ روانہ کیا ہے۔ امریکی وزیر ِ خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ مصری حکومت کو پُرامن مظاہروں کی اجازت دینی چاہیئے لیکن احتجاج کرنے والے افراد کے اوپر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔
مجمعے میں موجود افراد کا کہنا تھا کہ محمد مورسی کے حامی انہیں اقتدار میں واپس لانے اور مصر کی قومی سلامتی کی حفاظت کے لیے اپنا خون تک بہانے کو تیار ہیں۔
مجمعے میں شامل ایک فرد وائل عبدل منعم کا کہنا تھا کہ، ’میں اس احتجاج کا حصہ اس لیے بنا ہوں کیونکہ میں اپنے ووٹ کا دفاع کرنا چاہتا ہوں جو میں نے محمد مورسی کو دیا تھا۔ میں اپنے ووٹ کے لیے لڑوں گا، میں اپنے بچوں کے لیے لڑوں گا۔ یہ شرمناک بات ہے کہ فوجی لیڈر ال سسی نے ہمارے ووٹ کو طاقت کے بل پر چھینا ہے۔‘
گذشتہ ایک ماہ کے دوران جب سے صدر مورسی کو جبری طور پر اقتدار سے الگ کیا گیا ہے، تقریباً 200 افراد کو، جن میں سے اکثریت محمد مورسی کے حامیوں کی ہے، قتل کیا جا چکا ہے۔
مصر میں عبوری حکومت کے نائب صدر محمد البرادی نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصری حکمران خون خرابے سے گریز برتنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سختی سے پیش آنے سے کوئی حل نہیں نکلے گا۔
البرادی نے یہ بھی کہا کہ حالات بہتر ہونے پرحکومت اخوان المسلمین کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتی ہے۔
امریکی حکومت نے اپنا ایک وفد قاہرہ روانہ کیا ہے۔ امریکی وزیر ِ خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ مصری حکومت کو پُرامن مظاہروں کی اجازت دینی چاہیئے لیکن احتجاج کرنے والے افراد کے اوپر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔