بھارتی پارلیمان کی سیکیورٹی میں خامی کے معاملے پر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پارلیمانی اجلاس کی بقیہ مدت کے لیے اپوزیشن کے معطل ہونے والے اراکین کی تعداد 143 تک جا پہنچی ہے۔ پارلیمان کا سرمائی اجلاس 22 دسمبر تک چلے گا۔
معطل شدہ ارکان میں لوک سبھا کے 97 اور راجیہ سبھا کے 46 ارکان ہیں۔ اس طرح اب اپوزیشن کے تقریباً ایک تہائی ارکان پارلیمانی کارروائی میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ یاد رہے کہ رواں پارلیمنٹ کا یہ آخری اجلاس ہے۔
اپوزیشن ارکان کا مطالبہ ہے کہ 13 دسمبر کو پارلیمان کی سیکیورٹی میں خامی کی وجہ سے دو افراد کے ایوان کے اندر داخلے اور رنگین گیس چھوڑنے کا جو واقعہ پیش آیا اس پر وزیرِ داخلہ امت شاہ ایوان کے اندر بیان دیں۔
اس معاملے میں لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کا کہنا ہے کہ پارلیمان کی سیکیورٹی کا معاملہ پارلیمنٹ کے سیکریٹریٹ کے تحت آتا ہے۔ اس معاملے میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور دہلی پولیس جانچ کر رہی ہے۔ اس معاملے میں حکومت مداخلت نہیں کر سکتی۔
لیکن جب اپوزیشن کی جانب سے احتجاج ہوتا رہا اور وہ اپنے مطالبے پر قائم رہے تو پیر، منگل اور بدھ کو اپوزیشن ارکان کی معطلی کا سلسلہ جاری رہا اور اس طرح غیر معمولی واقعے میں معطل ارکان کی تعداد 143 تک پہنچ گئی۔
پارلیمانی تاریخ کا پہلا موقع
بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب اتنے ارکان معطل کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل 1989 میں راجیو گاندھی کے دورِ حکومت میں 63 ارکان کو معطل کیا گیا تھا۔
حزبِ اختلاف کی جانب سے اس کارروائی کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ وہ اس کو غیر جمہوری قرار دے رہے ہیں۔
کانگریس کی سابق صدر اور سینئر رہنما سونیا گاندھی نے بدھ کو کہا کہ حکومت نے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انھوں نے کانگریس کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب میں کہا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک سادہ اور جائز مطالبے پر اتنے ارکان کو معطل کر دیا گیا۔
انھوں نے چار دنوں کے واقعات پر وزیرِ اعظم نریندر مودی کے بیان پر تنقید کی اور کہا کہ ایسا بیان دے کر انھوں نے ایوان کے وقار اور ملکی عوام کے احترام کے تئیں اپنے خیالات واضح کر دیے ہیں۔
یاد رہے کہ وزیرِ اعظم نے اتوار کو ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے سیکیورٹی لیپس کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جانی چاہیے نہ کہ پارلیمنٹ میں بحث۔
ملک گیر احتجاج کی کال
کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے معطلی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کارروائی کے خلاف 22 دسمبر کو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔ ان کے مطابق حکومت کا یہ قدم انتہائی افسوس ناک اور غلط ہے اور ہم اس کے خلاف لڑائی لڑیں گے۔
کانگریس کے کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش کے مطابق حکومت نے ایوان سے اپوزیشن کو نکال کر ایوان کی مکمل صفائی کر دی ہے تاکہ کسی بامعنی بحث کے بغیر اہم بل منظور کر لیے جائیں۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت کا مقصد اپنے اُس رکن پارلیمنٹ کو بچانا بھی ہے جن کے جاری کردہ پاس پر دونوں افراد ایوان کے اندر داخل ہوئے تھے۔
سینئر کانگریس رہنما ششی تھرور نے کہا کہ حکومت نے اتنے ارکان کو مطل کر کے ایک ناپسندیدہ ریکارڈ بنایا ہے۔ کسی بھی ملک میں اتنے قانون سازوں کو بیک وقت معطل نہیں کیا گیا ہے۔ ان کے بقول یہ بھارت کی پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ فریب ہے۔
انھوں نے جو کہ خود ایوان میں احتجاج کرنے کی وجہ سے معطل کر دیے گئے ہیں، بدھ کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے اتنے زیادہ ارکان کی معطلی سے ہماری پارلیمنٹ کی بدنامی ہوئی ہے۔
حزبِ اختلاف کے دیگر رہنماؤں جیسے کہ ممتا بنرجی اور اسد الدین اویسی نے بھی اس کارروائی کی مذمت کی ہے۔ اویسی نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ اپوزیشن کے بغیر جمہوریت کے کیا معنی ہیں۔ بی جے پی کو ایوان میں بھاری اکثریت حاصل ہے۔ وہ اپوزیشن کی آوازوں سے کیوں خائف ہے۔
ادھر وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بدھ کو اپوزیشن کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ اسمبلی انتخابات میں شکست سے مایوس ہیں اسی لیے پارلیمانی کارروائی میں رخنہ اندازی کر رہے ہیں۔
پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی کے مطابق اپوزیشن ارکان نے قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی کی اور لوک سبھا کے اسپیکر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کی توہین کی۔
'اپوزیشن کا کام حکومت سے سوال کرنا ہے'
مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت نے اتنی بڑی تعداد میں اپوزیشن ارکان کو معطل کر کے جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔
سینئر تجزیہ کار اروند کمار سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اپوزیشن ارکان کا کام حکومت سے سوال کرنا ہے۔ اگر اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ میں سیکیورٹی کے معاملے پر وزیرِ داخلہ سے بیان دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو انھیں بیان دے کر اس معاملے کو ختم کرنا چاہیے۔
ان کے مطابق امت شاہ نے ایک نشریاتی ادارے کے ایک پروگرام میں اس معاملے پر بیان دیا ہے تو پھر ایوان میں بیان دینے میں کیا پریشانی ہے۔
ان کے مطابق وزیرِ اعظم مودی بھی ایک اخبار کو انٹرویو میں اس معاملے کو افسوس ناک قرار دے چکے ہیں۔ ان کے خیال میں حکومت ایک حکمتِ عملی کے تحت ایوان کو اپوزیشن سے خالی کرانا چاہتی ہے تاکہ وہ اہم بلوں کو بغیر بحث کے منظور کرا سکے۔
سینئر تجزیہ کار پرنیتا بندارو نے میڈیا ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے لیے اپنے تجزیاتی مضمون میں لکھا ہے کہ جب ارکانِ پارلیمان کو احتساب کا مطالبہ کرنے پر معطل کیا جاتا ہے تو جمہوریت کو کچھ نہ کچھ نقصان پہنچتا ہے اور اس سے انتخابی آمریت پیدا ہوتی ہے۔
ان کے مطابق اپوزیشن کے اتنے زیادہ ارکان کی معطلی کا مطلب یہ ہے کہ اب ایوان میں بھارت کے کروڑوں افراد کی کوئی آواز ہی نہیں ہے۔
پارلیمانی ضوابط کے ایک ماہر اور پارلیمنٹ کے سابق سیکریٹری جنرل پی ڈی ٹی آچاری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار اتنے زیادہ ارکان کو معطل کیا گیا ہے، یہ ایک غیر معمولی قدم ہے۔
ان کے خیال میں حکومت کے اس قدم سے ایوان کے اندر کیے جانے والے مطالبے اور آنے والے دنوں میں اہم بلوں کو اپوزیشن کی غیر موجودگی میں منظور کیے جانے کے معاملے پر حکومت کی نیت پر شکوک و شبہات اٹھ رہے ہیں۔
ان کے مطابق کچھ اپوزیشن ارکان تختیاں لے کر ایوان میں آئے۔ ایسے احتجاج کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن ضوابط کے مطابق ارکان کو حکومت سے سوال پوچھنے کا حق ہے۔ جہاں تک سیکیورٹی میں خامی کا معاملہ ہے تو یہ بات میرے لیے ناقابل فہم ہے کہ حکومت اس معاملے میں کوئی بیان جاری نہیں کر رہی ہے۔
دریں اثنا ’ترنمول کانگریس‘(ٹی ایم سی) کے رکن پارلیمان کلیان بنرجی کی جانب سے منگل کو ایوان کے باہر راجیہ سبھا کے چیئرمین اور نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ کی نقل اتارنے پر حکمراں ارکان تنقید کر رہے ہیں۔ صدر دروپدی مرمو اور وزیر اعظم مودی نے بھی اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
کلیان بنرجی کا کہنا ہے کہ وہ نائب صدر کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ان کا مقصد ان کی توہین کرنا نہیں تھا۔ ان کے مطابق وزیرِ اعظم مودی خود اپوزیشن ارکان کی نقل اتار چکے ہیں۔