امریکہ کے عہدیداروں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ عراقی شہر موصل کو داعش کے قبضے سے واگزار کروانے کی لڑائی کے دوران اتحادی فورسز نے فضائی کارروائی کی جس میں عینی شاہدین کے مطابق ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
قبل ازیں عراقی حکومت نے شہر میں عام شہریوں کو ہونے والے بھاری جانی ںقصان کی اطلاعات کے بعد ہفتہ کو داعش سے شہر کا قبضہ واپس لینے کی لڑائی کو عارضی طور پر روکنے کا کہا تھا۔
ان الزامات کے بعد کہ اتحادی فورسز کی فضائی کارروائیوں کی وجہ سے موصل کے نواح میں جدیدہ کے علاقے میں ایک سو سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے امریکہ کی قیادت میں اتحاد نے ایک بیان میں کہا کہ "عام شہریوں کی ہونے والی ہلاکتوں کی اطلاعات کے قابل اعتبار ہونے کی باضبابطہ تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔"
بیان میں کہا گیا ہے کہ اتحادی جنگی طیارے "اس علاقے میں داعش کے اہداف کو معمول کے مطابق نشانہ بناتے ہیں اور اتحادی فورسز ان کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کرنے کے دوران عام شہریوں کو ںقصان سے بچانے کے لئے تمام مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرتی ہیں۔"
امریکہ کی طرف سے ہفتہ کو کیے جانے والے اعلان سے پہلے یو ایس سینٹرل کمانڈ کے ترجمان جان تھامس نے امریکہ کے موقر اخبار 'دی نیویارک ٹائمز' کو بتایا تھا کہ فوج کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ کیا مغربی موصل میں ہونے والا دھماکا امریکہ یا دیگر اتحادی فضائی کارروائی کی وجہ سے ہوا یا یہ داعش کے "بم یا ان کی طرف سے خفیہ طور نصب مواد کی وجہ سے ہوا۔"
تاہم ایک عراقی عہدیدار نے اخبار کو بتایا کہ وہ اس واقعے کی حقیقت جانتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا۔
عراق کی خصوصی فورسز کے کمانڈر میجر جنرل مان السعدی نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ جدیدہ کے ایک مکان کی چھت سے فائرنگ کرنے والے تین جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے لئے اتحادی فضائی کارروائی کی درخواست کی گئی تھی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی فورسز یہ نہیں جانتی تھیں کہ اس مکان کے تہہ خانے میں بڑی تعداد میں عام شہری موجود ہیں۔
موصل کے ںواحی علاقے کے گورنر ںوافل حمادی نے فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ داعش کے جنگجوؤں نے ان عام شہریوں کو ' انسانی ڈھال کے طور پر " تہہ خانے میں جمع کیا تھا۔
"داعش ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو ہر قیمت پر موصل کی طرف عراقی فورسز کی پیش قدمی کو روکنا چاہتی ہے۔"
عراق کی پارلیمان کے اسپیکر سلیم الجمہوری نے ہفتہ کو اپنے ایک ٹوئیڑ پیغام میں بظاہر عام شہریوں کی ہلاکتوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے اتحادی فورسز پر زور دیا کہ عام شہریوں کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ "(شہر کو) آزاد کروانے والی فورسز کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری بھی ہے۔"
عراق کے نائب صدر جن کا تعلق موصل سے ہے، نے اس واقعہ کو ایک "انسانی المیہ" قرار دیا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ موصل کے داعش کے زیر کنٹرول علاقے میں اب بھی پانچ لاکھ عام شہری موجود ہیں۔ عام شہریوں، امدادی تنظیموں اور نگرانی کرنے والے عہدیداروں نے متنبہ کیا ہے کہ گولہ باری اور فضائی کارروائیوں کی صورت میں عام شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔