عراقی حکومت کی سرکاری فورسز نے منگل کے روز داعش کے آخری مضبوط گڑھ موصل میں دریائے دجلہ کے پل پر قبضے کی جنگ کے دوران عسکریت پسندوں کے ایک کمانڈر کو ہلاک کر دیا۔
ایک روز پہلے ہونے والی شدید بارشوں اور حکومتی فورسز کے دوبارہ قبضے میں آنے والے مغربی مضافاتی علاقوں کی جانب لوگوں کے انخلاءکے بعد منگل کے دن لڑائی میں شدت آگئی ۔
سردی اور بھوک کے ستائے ہوئے شہری عسکریت پسندوں کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے نکل مکانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مشرقی اور مغربی موصل کو ملانے والے آہنی پل کی جانب سرکاری فورسز کی پیش قدمی کی راہ میں اسلامک اسٹیٹ کے نشانہ باز رکاوٹ بن رہے تھے لیکن عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود وہ ایک ایک انچ آگے بڑھ رہے ہیں۔
سرکاری فورسز مٖغربی موصل کے ان علاقوں پر داخل ہوگئی ہیں جو ایک زمانے میں خود ساختہ خلافت کا درالحکومت تھا۔
وفاقی پولیس نے قدیم شہر کے فوجی کمانڈر ابو عبدالرحمن الانصاری کو ضلع باب التوب کو عسکریت پسندوں سے پاک کرنے کی مہم کے دوران ہلاک کر دیا۔
ایک پولیس عہدے دار نے بتایا کہ اسلامک اسٹیٹ کے کئی کمانڈر پہلے ہی موصل سے پسپا ہوچکے ہیں۔ انصاری کی ہلاکت عسکریت پسندوں کے لیے ایک دھچکہ ہے کیونکہ ان کے زیر قبضہ علاقہ سکڑتا جا رہا ہے ۔
لوہے کے پل پر قبضے کا مطلب یہ ہوگا کہ پانچ میں تین پل سرکاری فورسز کے کنٹرول میں ہوں گے ۔ ان پلوں کو امریکی قیادت کے فضائی حملوں اور عسکریت پسندوں سے نقصان پہنچ چکا ہے۔دو جنوبی پل پہلے ہی سرکاری فورسز کے کنٹرول میں آچکے ہیں۔
اکتوبر سے شروع ہونے والی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں موصل کاتقریباً 30 فی صد حصہ عسکریت پسندوں سے چھن چکا ہے۔
منگل کے روز عراقی فوجی دستے پل سے محض ایک سو میٹر کی دوری پر تھے۔
لڑائیوں کے نتیجے میں پناہ گزین اپنے سوٹ کیس، پانی کی بوتلیں اور دوسرا سامان اٹھائے مسلسل مغربی اضلاع کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ہتھ گاڑیوں پر اپنے بچے، بوڑھوں اور بیمار رشتے داروں کو بھی لے جا رہےہیں۔
عراقی فوجی موصل بغداد ہائی وے پر انہیں ٹرکوں میں سوار کرانے کے بعد اپنے کنٹرول کے علاقوں میں بھیج دیتے ہیں۔