عراقی حکومت کی فورسز داعش سے موصل کا قبضہ واپس لینے کی کوشش میں بدھ کے روز دریائے دجلہ کے ایک اہم پل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس مسجد کی جانب پیش قدمی کر رہی ہیں جہاں سن 2014 میں داعش کے لیڈر نے اپنی خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
عراق کی وفاقی پولیس نے کہا ہے کہ مشرقی موصل کو ملانے والے 'آئرن بریج' پر قبضہ کر لیا گیا ہےجو عسکریت پسندوں کے قبضے کے پرانے شہر سے رابطے کا ذریعہ ہے۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کا کہنا ہے کہ دریائے دجلہ پر قائم پانچ میں سے تین پل اب حکومتی فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس پل پر قبضہ عراق کی وفاقی پولیس اور وزارت داخلہ کے تیزی سے حرکت کرنے والے عسکری دستوں نے کیا۔
انہیں یہ کامیابی شدید لڑائی کے بعد حاصل ہوئی جس میں فوجیوں نے گلی گلی ان دشمنوں کا مقابلہ کیا جو ان کے خلاف خودکش کار بم دھماکے کر رہے تھے اور اپنے نشانچیوں کے ذریعے ہدف بنا رہے تھے۔
وفاقی پولیس کے ایک ترجمان نے کہا کہ ہمارے فوجی ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور اب وہ مسجد سے محض 800 میٹر کی دوری پر ہیں۔
موصل کا ہاتھ سے نکلنا داعش کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ہوگا کیونکہ یہ وہی شہر ہے جہاں داعش کے لیڈر ابو بکر البغدادی نے سن 2014 میں نور مسجد میں اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا۔
نور مسجد پر قبضہ عراقیوں کے لیے ایک بڑی علامتی کامیابی ہوگی۔لیکن اس کے باوجود آنے والے دن سرکاری فورسز کے لیے بہت مشکل ہوں گے کیونکہ انہیں قدیم شہر کی تنگ گلیوں کو چھپے ہوئے عسکریت پسندوں سے صاف کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی۔
داعش کے جنگجو گھروں میں عام شہریوں کے ساتھ مل گئے ہیں جس کی وجہ سے سرکاری فورسز کو ان کے خلاف فضائی حملوں اور توپ خانے کے استعمال میں دشواری کا سامنا ہے۔
عراقی فوج کی داعش سے موصل کا قبضہ واپس لینے کے لیے پچھلے سال 17 اکتوبر سے شروع کی جانے والی جنگ اب اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔
ہمسایہ ملک شام میں تین الگ الگ فورسز اسلامک اسٹیٹ کے کنٹرول کے اہم شہر رقہ کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں۔
داعش نے عراق اور شام کے کچھ علاقوں پر قبضے کے بعد اپنے جہادی یورپ اور کئی دوسرے ملکوں میں بھیجنے شروع کر دیے تھے جنہوں نے وہاں سینکڑوں عام شہریوں کو ہلاک کیا۔
بغداد میں وزیر اعظم عبادی کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگجو محدود علاقے میں محصور ہوتے جا رہے ہیں اور ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔
منگل کی رات ایک نیوزکانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ہم داعش کے خاندانوں کا تحفط کریں گے کیونکہ وہ عام شہری ہیں لیکن ہم دہشت گردوں سے سختی سے نمٹیں گے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔اگر انہوں نے ہتھیار نہ ڈالے تو وہ یقینی طور پر مارے جائیں گے۔