ماں کا چھوٹا قد بچے کی صحت پر منفی اثرڈال سکتاہے: نئی تحقیق

ماں کا چھوٹا قد بچے کی صحت پر منفی اثرڈال سکتاہے: نئی تحقیق

امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بچپن میں غذایت کی قلت کا شکار رہنے والی خواتین کے بچوں کو صحت کے مسائل کا سامنا رہتاہے۔ یہ تحقیق ہاروڈ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے ترقی پذیر ملکوں میں کی تھی۔ ان کی ریسرچ سے یہ ظاہر ہوا کہ نسبتاً چھوٹے قد کی خواتین کے بچوں میں کم عمر میں ہلاک ہونے کے امکانات نمایاں طورپر زیادہ تھے، بہ نسبت ان بچوں کے، جن کی مائیں بچپن میں غذائی قلت کا شکار نہیں ہوئیں تھیں اور جن کے قد دراز تھے۔

ہاروڈ سکول آف پبلک ہیلتھ کے ڈاکٹر ایس وی سبرامنین اس مطالعاتی جائزے کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے یہ پتاچلا ہے کہ بچپن کے دور میں خوراک نہ صرف بچی کی جسمانی نشوونما، اس کے قد ، وزن اوراس کی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ اس کی آئندہ نسل کی جسمانی نشوونما، قدوقامت اور صحت اور متوقع عمر پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس ریسرچ میں ماہرین نے 1991ء اور2008ء کے دوران 54 ترقی پذیر ملکوں کے صحت سے متعلق اعدادوشمار کا جائزہ لیا۔

بھارت کے حوالے سے اس مطالعاتی جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ چھوٹے قد کی ماؤں کے بچوں میں وزن اور خون کی کمی کے باعث کم عمری میں ہلاک ہونے کے امکانات، دراز قد ماؤں کے بچوں کی نسبت 70 فی صد تک زیادہ ہوتے ہیں۔اس جائزے سے یہ پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ ماں کی خراب صحت اس کی آنے والی نسل میں منتقل ہوجاتی ہے۔

اس تحقیق سے ماں کے قد اور بچے کی صحت کے درمیان تعلق میں جلد موت کے خطرے اور وزن اور خون کی کمی کے پہلو ؤں کو بھی مدنظر رکھا گیاتھا۔

اس مطالعاتی جائزے میں ماہرین نے بھارت کے 2005ء اور2006ء کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے سے پانچ سال سے کم عمر کے 50 ہزار بچوں کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا تھا۔

اس سے قبل ہونے والی ایک تحقیق میں دوران حمل اور بچے کی زندگی کے ابتدائی عرصے کے ان عوامل پر توجہ مرکوز کی گئی تھی جو بچے کی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ لیکن اس تحقیق میں والدین کی صحت کے اپنے بچوں پر اثرات کو زیر غور نہیں لایا گیاتھا۔

ڈاکٹر سبرامنین کہتے ہیں کہ اگرچہ ماں کے قد کاتعلق بچپن میں اس کی غذا اور ماحول سے ہوتا ہے ، تاہم ہمارے جائزے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ بچپن میں ماں کی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات 15 سے30 سال کے بعد اس کے بچوں کی صحت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

اگرچہ سائنس دان چھوٹے قد کی ماؤں اور ان کے بچوں کی صحت کے درمیان تعلق کی کوئی سوفی صد درست وجہ بتانے سے قاصر رہے ہیں تاہم اس مطالعاتی جائزے کے نتائج کے پیش نظر یہ بات قدرے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ بظاہر اس کی سب سے بڑی طبی وجہ ماں کی بیضہ دانی یا رحم کا سائز ہے۔ایک چھوٹی بیضہ دانی کے نتیجے میں حمل کے دوران پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہے جس سے بچے کی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔

ماں کے قدکے بچے پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں، اس بارے میں ڈاکٹر سبرامنین کہتے ہیں کہ ماں کے قد میں ایک سینی میٹر اضافے سے بھی کم عمری میں بچے کے ہلاک ہونے کے خطرے میں دو فی صد تک اور اس کے وزن میں کمی کا امکان تین فی صد تک کم ہوسکتا ہے۔

اس جائزے میں باپ کے قد کو بھی زیر غور لایا گیا لیکن بچے میں ہلاکت کے خطرے کا اس سے کوئی تعلق ظاہر نہیں ہوا۔

اس تحقیق سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی ریسرچ کے نتائج عالمی پیمانے پر کی جانے والی صحت سے متعلق کوششوں کے لیے اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔ سبرامنین کہتے ہیں کہ اس مطالعاتی جائزے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں بچوں ، خاص طورپر لڑکیوں کی صحت پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ان پر صرف کی جانے والی رقم سے نہ صرف ان کی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ آنے والی نسلیں بھی اس سرمایہ کاری سے فیض پاسکتی ہیں۔

یہ چیز خاص طورپر جنوبی ایشیا کے ان پس ماندہ علاقوں کے لیے اور بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے جہاں لڑکیوں کی صحت اور تعلیم و تربیت کو نظر انداز کرکے لڑکوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے یونی سیف کے مطابق بھارت میں 2006ء میں پانچ سال سے کم عمر کے 20 لاکھ بچے ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ تعداد دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے اور یہ تعداد دنیا بھر میں ہلاک ہونے والے بچوں کی کل تعداد کا لگ بھگ ایک چوتھائی ہے۔