کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے قانون سازی کیجارہی ہے جسکے بعد 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی پر پابندی ہو گی اور خلاف ورزی کی صورت میں ایک لاکھ روپے جرمانہ اور 2 سال قید کی سزا دی جا سکے گی۔ صوبائی وزیر ترقی نسواں
کراچی —
کہاجاتا ہے کہ صحت مند معاشرے کی بنیاد صحت مند 'ماں' ہے اگر ماں کی صحت اچھی ہوگی تو بچے کی صحت بھی بہتر ہوگی۔صحت مند معاشرے کو پروان چڑھانے کیلئے ماں کا صحتمند ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اسی مقصد کے تحت کراچی کے مقامی ہوٹل میں ’ماں اور بچے کی صحت‘ کے عنوان سے آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جسمیں شعبہ صحت سے متعلق اداروں سے منسلک افراد سمیت ماہرین صحت نے شرکت کی۔
معاشرے میں کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے سیمینار کی مہمان خصوصی صوبائی وزیر ترقی نسواں روبینہ قائم خانی نے خطاب میں کہا کہ، ’دارالامان میں اکثر13 سے 14 سال کی لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر پناہ حاصل کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ان کی زبردستی شادی کی جارہی تھی۔ کم عمری کی شادیوں کو روکنا پڑے گاکیونکہ اس سے نہ صرف خود کمسن ماں بلکہ اس کے آنے والے بچوں کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔‘
کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے قانون سازی کیجارہی ہے جسکے بعد 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی پر پابندی ہو گی اور خلاف ورزی کی صورت میں ایک لاکھ روپے جرمانہ اور 2 سال قید کی سزا دی جا سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ ماں اور بچے کی صحت کو یقینی بنائے بغیر صحت مند معاشرے کا قیام ممکن نہیں۔
خواتین میں چھاتی کے کینسر میں اضافے پر نجی اسپتال کی ماہر بریسٹ کینسر
ڈاکٹر روفینا سومرو نے کہا کہ، ’40 سال سے کم عمر 30 فیصد خواتین بریسٹ کینسر کا شکار ہو رہی ہیں جو بہت تشویشناک بات ہے۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ایسے مریضوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ چالیس سال اور اس سے زائد عمر کی خواتین کا کم ازکم سال میں ایک بار چھاتی کا معائنہ ضرور ہونا چاہیے۔‘
روفینا سومرو نے بتایا کہ، ’کراچی میں اب اٹامک انرجی کے ہر سینٹر پر بریسٹ ایکسرے اور میموگرافی کی مشینیں موجود ہیں لیکن اندرون سندھ میں یہ صرف حیدرآباد اور لاڑکانہ میں ہیں اس کے علاوہ اندرون سندھ یہ مشینیں دستیاب نہیں جو کہ افسوسناک بات ہے۔‘
معروف گائناکولوجسٹ اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری ڈاکٹر شیر شاہ سید نے کہا کہ، ’پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ جہالت اور لاعلمی ہے۔ ملک بھر میں6 لاکھ سے زائد اتائی لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ زچگی کے وقت فوری طبی امداد نہ مل نے کی صورت میں خواتین خون بہہ جانے کے باعث موت واقع ہوجاتی ہے‘۔
اس سیمینار کا انعقاد صحت کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم نیشنل فورم فور انوائرمنٹ ہیلتھ کی جانب سے کیا گیا جسمیں شعبہ طب اور دیگر شعبے سے تعلق رکھنےوالے افراد شریک ہوئے۔
معاشرے میں کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے سیمینار کی مہمان خصوصی صوبائی وزیر ترقی نسواں روبینہ قائم خانی نے خطاب میں کہا کہ، ’دارالامان میں اکثر13 سے 14 سال کی لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر پناہ حاصل کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ان کی زبردستی شادی کی جارہی تھی۔ کم عمری کی شادیوں کو روکنا پڑے گاکیونکہ اس سے نہ صرف خود کمسن ماں بلکہ اس کے آنے والے بچوں کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔‘
کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے قانون سازی کیجارہی ہے جسکے بعد 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی پر پابندی ہو گی اور خلاف ورزی کی صورت میں ایک لاکھ روپے جرمانہ اور 2 سال قید کی سزا دی جا سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ ماں اور بچے کی صحت کو یقینی بنائے بغیر صحت مند معاشرے کا قیام ممکن نہیں۔
خواتین میں چھاتی کے کینسر میں اضافے پر نجی اسپتال کی ماہر بریسٹ کینسر
ڈاکٹر روفینا سومرو نے کہا کہ، ’40 سال سے کم عمر 30 فیصد خواتین بریسٹ کینسر کا شکار ہو رہی ہیں جو بہت تشویشناک بات ہے۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ایسے مریضوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ چالیس سال اور اس سے زائد عمر کی خواتین کا کم ازکم سال میں ایک بار چھاتی کا معائنہ ضرور ہونا چاہیے۔‘
روفینا سومرو نے بتایا کہ، ’کراچی میں اب اٹامک انرجی کے ہر سینٹر پر بریسٹ ایکسرے اور میموگرافی کی مشینیں موجود ہیں لیکن اندرون سندھ میں یہ صرف حیدرآباد اور لاڑکانہ میں ہیں اس کے علاوہ اندرون سندھ یہ مشینیں دستیاب نہیں جو کہ افسوسناک بات ہے۔‘
معروف گائناکولوجسٹ اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری ڈاکٹر شیر شاہ سید نے کہا کہ، ’پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ جہالت اور لاعلمی ہے۔ ملک بھر میں6 لاکھ سے زائد اتائی لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ زچگی کے وقت فوری طبی امداد نہ مل نے کی صورت میں خواتین خون بہہ جانے کے باعث موت واقع ہوجاتی ہے‘۔
اس سیمینار کا انعقاد صحت کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم نیشنل فورم فور انوائرمنٹ ہیلتھ کی جانب سے کیا گیا جسمیں شعبہ طب اور دیگر شعبے سے تعلق رکھنےوالے افراد شریک ہوئے۔