دو نو عمر امریکی بچوں کی والدہ کو جمعرات کی صبح میکسیکو بدر کر دیا گیا ہے جو بظاہر غیر اندراج شدہ تارکین وطن سے متعلق امریکہ کی پالیسی میں تبدیلی کی عکاسی ہے۔
متاثرہ خاتون کے وکیل رے یبارا مالڈوناڈو نے کہا کہ ایک عورت کو جس کے پاس کوئی دستاویز نہیں تھی کو بدھ کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ معمول کی پڑتال کے سلسلے میں ایریزونا کے فینکس شہر کے امیگریشن کے دفتر میں موجود تھی۔
مالڈوناڈو نے کہا کہ "مجھے میکسیکو کے قونصل خانے نے بتایا کہ میری موکلہ کو ملک بدر کر دیا گیا ہے۔"
36 سالہ گوادالیوپ گارسیا دی ریوس کو جانچ پڑتال کے لیے 2008ء سے لے کر اب تک ہر سال امریکہ کے امیگریشن حکام سے ملنا پڑتا تھا، کیوں کہ اسے ایک پارک میں، جہاں وہ کام کرتی تھی، ایک چھاپے کے دوران جعلی سوشل سکیورٹی نمبر استعمال کرنے پر روک دیا گیا تھا۔
تاہم جب بدھ کو گاریسا امیگریشن کے حکام سے ملنے کے لیے گئیں تو اسے گرفتار کرنے کے بعد ملک بدر کرنے کی کارروائی شروع کر دی گئی۔
ایک نیوز کانفرنس کے دوران مالڈوناڈو نے کہا کہ انہوں نے اسے بدر کرنے کے خلاف حکم امتناعی حاصل کرنے کے لیے بدھ کو درخواست دائر کی تھی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بعد ازاں بغیر کوئی وجہ بتائے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔
دوسری طرف امریکہ کے امیگریشن اور کسٹمز کے نفاذ کے ادارے (آئی سی ای) نے کہا کہ گاریسا کو ملک بدر کرنے کی وجہ محکمہ انصاف کے انتظامی دفتر کی طرف سے جاری کردہ حکم تھا۔
گارسیا دی ریوس سے متعلق معلومات کے مطابق انھیں مارچ 2009ء میں ایک جرم میں قید کی سزا بھی ہوئی تھی۔
مالڈوناڈو نے کہا کہ گارسیا دی ریوس کی ملک بدری، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے ان تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کی کوشش کا حصہ ہے جو ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور جنہیں سابق صدر براک اوباما کی انتظامیہ میں ملک بدر کرنا پہلی ترجیح نہیں تھا۔
گارسیا دی ریوس کے 16 سالہ بیٹے اینجل نے کہا کہ "مجھے اور میری بہن کو میری ماں کی ضرورت ہے۔ اس کی عمر صرف 14 سال ہے وہ بڑی ہو رہی ہے اسے (ماں کی) ضرورت ہے۔۔۔۔ میری ماں میرے لیے سب کچھ ہے۔۔۔ ہم بڑی تکلیف میں ہیں۔"
تارکین وطن کے لیے کام کرنے والے درجنوں سرگرم کارکنوں نے بدھ کی رات کو فینکس شہر کے مرکز میں واقع امیگریشن کے دفتر کے کے باہر گارسیا دی ریوس کو ملک بدر کرنے کے معاملے پر احتجاج بھی کیا۔