پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ شہر کی دیواریں، عمارتوں پر لگے پوسٹروں، بینروں، وال چاکنگ، نعرے اور مختلف سیاسی شخصیات کے بیانات، اشارے۔۔۔ بظاہر، سبھی شہری سیاست میں تبدیلی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ لیکن، ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ایسی کسی بھی تبدیلی سے انکاری ہیں۔
پیر کو ’کراچی پریس کلب‘ کے باہر کئی بینر آویزاں دیکھئے گئے جن پر پرویز مشرف کی تصویر کے ساتھ ساتھ یہ نعرہ بھی درج تھا کہ ’’کون بچائے گا پاکستان، متحدہ پاکستان اور مشرف بھائی جان‘‘۔
ضلع وسطی کے مختلف علاقوں میں پرویز مشرف کی تصویر کے ساتھ ساتھ وال چاکنگ بھی کی گئی، جس میں لکھا ہے کہ ’’ہمیں مشرف کی ضرورت ہے۔‘‘
مختلف دیواروں پر ’جئے مشرف‘ اور ان کی جماعت کا نام ’اے پی ایم ایل‘ بھی تحریر ہے۔ مختلف علاقوں میں سابق صدر کی تصاویر بھی چسپاں ہیں۔
پھر گزشتہ ہفتے ایم کیو ایم کے تین مختلف رہنماؤں خواجہ اظہار الحسن، فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی کی پرویز مشرف سے دبئی میں ملاقات کی خبریں بھی مقامی میڈیا کی زینت بنیں، جبکہ ایک ملاقات کی تو تصاویر بھی اخبارات نے شائع کیں۔
اس کے باوجود، فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی ان ملاقاتوں کی مسلسل تردید کرتے نظر آ رہے ہیں، جبکہ خواجہ اظہار الحسن کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کی سیاسی بصیرت سے فائدہ اٹھانے کیلئے ان سے ملاقات کی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں پرویز مشرف کے مشورے اہم ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب، سیاسی تجزیہ نگار اور مبصرین بھی ان ملاقاتوں کو مفید قرار دے رہے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار حسن نثار کا کہنا ہے کہ ’’اگر پرویز مشرف کو ایم کیو ایم کی سربراہی ملی تو یہ پاکستان کیلئے نیک شگون ہوگا‘‘۔
دیگر مبصرین بھی اِسی رائے کے معلوم ہوتے ہیں کہ ’’اگر پرویز مشرف ایم کیو ایم کا حصہ بن گئے تو پورے ملک میں پارٹی کو پذیرائی ملے گی‘‘۔
ڈاکٹر فاروق ستار کی تردید اپنی جگہ، لیکن ان امکانات کو تقویت ملنے کی ایک وجہ آل پاکستان مسلم لیگ کے رہنما احمد رضا قصوری کا وہ بیان بھی بتایا جاتا ہے جس میں انہوں نے ایم کیو ایم میں ’پلس ون کا فارمولا‘ تجویز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سابق سپہ سالار اور صدر ایم کیو ایم میں قربت ہوئی تو کون انگلی اٹھائے گا‘‘۔ تاہم، احمد رضا قصوری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’مشرف کو ایم کیو ایم میں شامل کرنے کی تجویز میری ذاتی رائے ہے۔‘‘
ایم کیو ایم پاکستان نے ان قیاس آرائیوں سے متعلق واضح تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’متحدہ قومی موومنٹ کا کسی بھی سیاسی جماعت سے اتحاد زیر غور نہیں ہے‘‘۔
یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں پرویز مشرف کی جانب سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا، جبکہ فاروق ستار سمیت متحدہ رہنماؤں نے بھی ابھی تک ’پلس فارمولے‘ کو بظاہر مسترد کیا ہے۔ لیکن، تجزیہ کاروں کے مطابق، لگتا یہی ہے کہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کو پرویز مشرف کی قیادت میں متحد کرنے کیلئے کوششیں جاری ہیں۔