ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کے میڈیا میں ان پر پابندی اور شناختی کارڈ بلاک کرنے کا عدالتی حکم آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ یہاں شہری آزادیاں چھین لی جائیں اور اظہار کی آزادی پر پابندیاں لگائی جائیں۔
لندن میں مقیم الطاف حسین اپنے سابق ساتھی ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل سمیت پاکستان میں کئی مقدمات میں مطلوب ہیں۔ انھوں نے بائیس اگست 2016 کو کراچی پریس کلب پر ایک جلسے سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف نعرے لگائے تھے۔ اس کے بعد پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے ان سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور لاہور ہائیکورٹ نے میڈیا میں ان کا بیان نشر کرنے پر پابندی لگادی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
الطاف حسین نے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے بائیس اگست کے نعروں کی وجہ بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ ان دنوں کراچی پریس کلب پر ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی بھوک ہڑتال جاری تھی۔ ان کے کارکنوں کو گرفتار اور ماورائے عدالت قتل کیا جارہا تھا۔ نہ عدالت انصاف دے رہی تھی اور نہ کوئی اور آواز سننے والا تھا۔ میں ایسے پاکستان کو کیسے زندہ باد کہہ سکتا تھا جہاں میرے لوگ مر رہے ہوں۔
الطاف حسین نے یاد دلایا کہ انھوں نے مردہ باد کا نعرہ لگانے کے فورا بعد عوام ہی نہیں، جرنیلوں بھی سے معافی مانگی۔ لیکن فوج نے پہلے سے مائنس الطاف کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ جس کی بنیاد سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ نے رکھی تھی اور وہی پالیسی آج تک جاری ہے۔
الطاف حسین نے کہا کہ آج پشتو بولنے والے، بلوچی بولنے والے، ہزاروال، پنجابی بولنے والے، سب وہی نعرے لگارہے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے دو دھڑے ہوگئے ہیں، آپ الیکشن میں کس کی حمایت کریں گے؟ اس سوال پر الطاف حسین نے کہا کہ نائن زیرو بند ہے۔ ایم کیو ایم کے تمام دفاتر کو مسمار کردیا گیا ہے۔ میری تحریر، تقریر اور تصویر پر پابندی ہے۔ ان حالات میں اپنے لوگوں سے میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ الیکشن میں حصہ لیں۔ پی آئی بی اور بہادر آباد ٹولے نے شہیدوں کے لہو کا سودا کر لیا ہے۔ میں ایسے الیکشن میں حصہ لینا گناہ سمجھتا ہوں۔ مہاجر عوام اس الیکشن کا 1993 سے زیادہ موثر بائیکاٹ کریں گے۔
الطاف حسین کہتے ہیں کہ عمران فاروق کا قتل آئی ایس آئی کی سازش تھی۔ انھیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے خریدے ہوئے لوگوں کے ذریعے قتل کروا کے اس کا جھوٹا الزام مجھ پر لگادیا۔ اس میں مصطفیٰ کمال، پی آئی بی اور بہادرآباد ٹولا اور پیپلز پارٹی بھی شامل تھی۔ قتل کے مرکزی ملزم کاشف کو انھوں نے مار ڈالا ہے۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے لوگ کارروائی کرنے والوں سے جا کر مل آئے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف میں یہ مقدمہ چلایا جائے تو میں وہاں پیش ہونے کے لیے تیار ہوں۔
ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 دسمبر 2010 کو شمالی لندن میں ان کے گھر کے قریب قتل کردیا گیا تھا۔ اس قتل کا مقدمہ پاکستان میں دسمبر 2015 میں قائم کیا گیا جس میں الطاف حسین کو بھی نامزد کیا گیا۔ اس مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے الطاف حسین کا شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم دیا ہے۔
الطاف حسین نے انکشاف کیا کہ آئی ایس آئی اور فوج کے لوگ لندن آکر ان سے ملتے رہے اور معاملات کو درست کرنے کے لیے کچھ باتیں طے کی گئیں۔ ان کے بقول میں نے تمام وعدے پورے کیے لیکن ا نھوں نے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔