نون لیگ اور ایم کیو ایم کا امکانی ساتھ سیاسی داؤ پیچ بدل دے گا

نون لیگ اور ایم کیو ایم کا امکانی ساتھ سیاسی داؤ پیچ بدل دے گا

متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی کے بعد پاکستانی سیاست میں اٹھنے والے طوفان کے بعد بدھ کو مکمل طور پر خاموشی چھائی رہی اور کسی جانب سے بھی "آفٹر شاکس" کی اطلاعات نہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنے رہنماؤں کو ایم کیو ایم کے خلاف لب کشائی سے منع کر دیا ہے۔

بدھ کوتمام نظریں سندھ کابینہ کے اجلاس پر مرکوز رہیں تاہم اس اجلاس کے خاتمے پر بھی کوئی نئی بات سامنے نہیں آ سکی ۔ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں وزیراطلاعات سندھ شرجیل میمن انتہائی محتاط نظر آئے اور ایم کیو ایم سے متعلق پوچھے گئے ہر سوال پر صرف "نوکمنٹس" پر ہی اکتفا کیا ۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم سے اعلیٰ سطحی مذاکرات جاری ہیں جن میں مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔شرجیل میمن نے یہ بھی بتایا کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ارکان اسمبلی کو ایم کیو ایم کے خلاف بیان بازی نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

دوسری جانب سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین، تجزیہ نگاروں اور مبصرین نے اس بات کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے کہ اگر نواز لیگ اور ایم کیوایم ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر رضامند ہوجاتی ہیں تو پھر سیاسی داوٴ پیچ کیا ہوں گے!!

کہتے ہیں کہ سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا لہذا سیاسی بساط پر مسلم لیگ نون اور متحدہ قومی موومنٹ کے ہاتھ ملانے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن آئیے پہلے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا مذکورہ بالا دونوں جماعتوں کا اتحاد کسی طرح ممکن ہے ؟ اگر ہاں تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے؟ ۔۔اور۔۔ملاپ کی صورت میں" نیرنگی سیاست "کیا ہوگی؟

مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے تعلقات کا مختصر جائزہ
مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان ماضی کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دونوں جماعتوں میں خوشگوار یادیں وابستہ نہیں بلکہ دونوں جماعتیں مختلف حوالوں سے ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہی ہیں۔ مثلاً:

۔۔۔ ایم کیو ایم 1992 میں کراچی آپریشن کی ذمہ داری مسلم لیگ ن کے کھاتے میں ڈالتی نظر آ تی ہے۔

۔۔۔ایم کیوایم ن لیگ سے اس بات پر بھی خفا ہے کہ حکیم سعید کے قتل کا الزام اس کے سر لگا کر ن لیگ نے ایم کیو ایم سے اتحاد توڑدیا تھا۔

۔۔۔لندن میں آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ ن نے یہ شق شامل کروائی کہ آئندہ کوئی جماعت ایم کیو ایم سے اتحاد نہیں کرے گی۔

۔۔۔مسلم لیگ ن چیف جسٹس کی آمد پر کراچی میں امن و امان خراب کرنے کا الزام بھی ایم کیو ایم پر ہی عائد کرتی ہے ۔

۔۔۔ ن لیگ کی جانب سے الطاف حسین پر ملک توڑنے سے متعلق بیان دینے کا الزام بھی عائد کیا جا تا ہے۔

نون لیگ کے گرین سگنل پر پی پی کو مشکلات ہوسکتی ہیں
مبصرین کے مطابق اگر مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم کو مشترکہ اپوزیشن کے لئے گرین سگنل دے دیا تو نہ صرف وفاق بلکہ سندھ میں بھی حکمراں جماعت کا ایک مضبوط اور حقیقی اپوزیشن سے واسطہ پڑے گا۔ اس طرح عوامی مسائل پر ایسا سیاسی طوفان آ سکتا ہے کہ جس میں پیپلزپارٹی کیلئے اپنی کشتی پار لگانا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔لیکن اگر دونوں جماعتیں ماضی کی طرح ایک دوسرے سے الجھتی رہیں تو پھر اس صورتحال کا تمام فائدہ پیپلزپارٹی کو ہو گا اوروہ آسانی سے نہ صرف باقی ماندہ مدت پوری کر لے گی بلکہ مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر آنے والے انتخابات میں کامیابی کیلئے بھی اس کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔

نواز شریف کی ا یم کیو ایم کے خلاف موجودہ پالیسی
مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف نے بھی لاہور میں پارٹی اجلاس میں اپنے رہنماؤں کو ایم کیو ایم کے خلاف بیانات دینے سے روک دیا ہے ۔ نواز شریف اور پارٹی قیادت سے ایم کیو ایم کی اپوزیشن پنچوں پر آمد کے بعد کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق نواز شریف ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر ایک حقیقی اپوزیشن کے قیام کے حق میں ہیں ۔

نواز شریف کوایم کیو ایم سے رویے میں لچک پیدا کرنی ہو گی
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کی علیحدگی سے نواز شریف کو اپنے رویے میں لچک پیدا کرنی ہو گی کیونکہ دسمبر دو ہزار دس میں بھی جب ایم کیو ایم نے وفاقی کابینہ سے علیحدگی اختیار کی تھی توعین اسی وقت نواز شریف کی جانب سے ان پر سخت تنقید کی گئی جس کے باعث ایم کیو ایم کے پاس پیپلزپارٹی کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔