متحدہ قومی موومنٹ کی پنجاب میں تنظیم سازی

متحدہ قومی موومنٹ کی پنجاب میں تنظیم سازی

صوبہ پنجاب ان دنوں سب سے زیادہ سیاسی خبروں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ مسلم لیگ کی جانب سے پنجاب حکومت سے پیپلز پارٹی کے ارکان کو نکالنے کے بعد گورنر نے اس کی سمری پر بھی دستخط کردیئے ہیں۔ یوں آنے والے دنوں کے حوالے سے سیاست پر نظر رکھنے والے افراد امید کررہے ہیں کہ پنجاب میں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی اکھاڑا گرم رہے گا۔

سیاسی حوالوں کے لئے یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف اور پی پی پی حکومت، خصوصاً صدر آصف علی زرداری اور وزیرا عظم یوسف رضا گیلانی ، میں ایک سرد جنگ جاری ہے اور دونوں جماعتیں اس دوران ایک دوسرے کو مزید برداشت کرنے پرا ٓمادہ نظر نہیں آتیں۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ متحدہ قومی موومنٹ اٹھارہی ہے جو تحمل کے ساتھ پنجاب میں اپنے قدم جما رہی ہے ۔

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے ملتان، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد جیسے بڑے شہروں کے دورے اور وہاں ان کا پرتپاک استقبال متحدہ قومی موومنٹ کے اس دعوے کو صحیح ثابت کر تا ہے کہ وہ اب صرف سندھ کے شہروں تک محدود نہیں رہنا چاہتی بلکہ وہ پنجاب میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اپنی گرفت مضبوط کررہی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ نے سن 2005ء کے زلزلے کے وقت بھی کچھ اسی طرح کی پالیسی ترتیب دی تھی۔ زلزلہ زدگان کی بڑھ چڑھ کر مدد میں متحدہ نے کوئی کسر نہ اٹھارکھی اور زلزلے کے کچھ سالوں بعد تک وہ زلزلہ متاثرین کی مدد میں پیش پیش رہی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسے آزاد کشمیر میں خود کو بھرپور انداز میں متعار ف کرانے کا موقع مل گیا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ متحدہ کی اسی پالیسی کی وجہ سے نہ صرف پنجاب اور آزاد کشمیر میں اسے آگے آنے کا موقع ملا بلکہ گلگت بلتستان میں بھی متحدہ پاوٴں پسار چکی ہے۔ متحدہ رہنماوٴ ں کی جانب سے ملتان اور دیگر شہروں کے دورے متحدہ کی رکنیت سازی کے لئے بھی سازگار ماحول پیدا کررہے ہیں۔اس طرح ایک طرف تو سیاسی سطح پر لوگ متحدہ میں شمولیت اختیار کررہے ہیں تو دوسری جانب بڑے نام بھی متحدہ میں شامل ہورہے ہیں، مثلاً سابق کرکٹر سرفراز نواز ۔

اس تمام صورتحال میں مسلم لیگ نون کی بھی تعریف کرنا پڑے گی کہ ہزار اختلافات کے باوجود مسلم لیگ نون نے جو کہا وہ کر دکھایا۔ نون لیگ کے شہباز شریف اور دیگر رہنماوٴں نے کہا تھا کہ متحدہ سمیت تمام سیاسی وجمہوریت پسند جماعتوں کے لئے پنجاب کے دروازے کھلے ہیں۔ اگرچہ مسلم لیگ ن پنجاب کی بہت بڑی سیاسی قوت ہے لیکن اس کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ کے لئے میدان کھلارکھنا اس کے جمہوری طرز عمل کی طرف اشارہ ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کا زراعت پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف انقلاب کے لئے آواز بلند کرناگوکہ پنجاب کے کچھ طبقوں اور گھرانوں کے لئے ناپسندیدہ نعرہ ہوسکتا ہے لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ اگر پنجاب والے اس نعرے پر جاگ گئے تو پھرتبدیلی کے آگے بند باندھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔

متحدہ قومی موومنٹ کی ایک اور پالیسی نے صوبہ خیبر بختونخواہ اور پنجاب خصوصاً جنوبی پنجاب میں اسے سوچ کا محور عطاکیا ہے اور وہ ہے متذکرہ دونوں صوبوں میں نئے صوبوں کے لئے اس کاہم آواز ہونا۔ یہی وجہ ہے کہ ملتان اور دیگر شہروں میں ڈاکٹر فاروق ستار کا شاندار استقبال کیا گیا ۔

پھر مسلم لیگ ق کی جانب سے نائن زیرو کا حالیہ دورہ اور پنجاب میں متحدہ اور سندھ میں ق لیگ کے لئے راہیں ہموار کرنے کے راضی نامے نے بھی متحدہ کو پنجاب میں قدم جمانے کا بہت اچھا موقع فراہم کیا ہے۔ ق لیگ، نواز لیگ کے لئے قابل قبول نہیں مگر پنجاب کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ق لیگ، نواز لیگ کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔

سیاسی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ دس اپریل کو پنجاب میں ہونے والا متحدہ کا جلسہ عام متحدہ کے لئے پنجاب میں نئی راہیں متعین کرنے میں نہایت سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔