ڈزنی کی نئی مہنگی فلم 'مولان' ریلیز ہوتے ہی تنازعات کی زد میں آ گئی

فلم 'مولان' کے حوالے سے ہنگامہ اس انکشاف کے بعد شروع ہوا کہ فلم کے کچھ حصے چین کے صوبے سنکیانگ میں فلم بند کیے گئے ہیں۔

امریکی انٹرٹینمنٹ کمپنی 'ڈزنی' کی فلمیں شروع سے ہی عوامی دلچسپی کا موضوع رہی ہیں۔ لیکن اس کے بینر تحت حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم 'مولان' کے بائیکاٹ کے مطالبات میں شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جب کہ اس سے جڑے تنازعات میں اضافہ بھی ہوا ہے۔

خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق 20 کروڑ ڈالرز کی خطیر رقم سے بنائی گئی چین کی لیجنڈری خاتون جنگجو کے کردار پر مبنی فلم 'مولان' پر ہنگامہ اس وقت شروع ہوا، جب یہ بات سامنے آئی کہ فلم کے کچھ حصے چین کے صوبے سنکیانگ میں فلم بند کیے گئے ہیں اور فلم کے اینڈ کریڈٹس میں پبلک سیکیورٹی بیورو سمیت سنکیانگ صوبے میں کام کرنے والی 8 حکومتی ایجنسیوں کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کریڈٹس میں چین کی 'کمیونسٹ پارٹی' کے پروپیگنڈا ڈیپارٹمنٹ کا بھی شکریہ ادا کیا گیا ہے۔

'اے ایف پی' کے مطابق سنکیانگ کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت مختلف ذرائع سے یہ رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں کہ وہاں ایغور اور قازق نسل کے مسلمانوں کے لیے متعدد حراستی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کی سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ریکارڈ پر ہیں۔

فلم کے اینڈ کریڈٹس سامنے آنے سے پہلے بھی 'مولان' سیاسی تنازع میں گھر گئی تھی جس کی وجہ فلم کی اداکارہ لوئی یفی کی گزشتہ سال ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن کی حمایت کرنا تھی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں، ماہرین تعلیم اور صحافیوں نے سنکیانگ میں ایغور اور قازق مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن سے پردہ اٹھایا ہے جس میں جبری مشقت، جبری نس بندی، انتہائی سخت مذہبی پابندیاں اور نقل و حرکت پر روک ٹوک شامل ہے۔

تعلیم سے متعلق سرگرم غیر سرکاری ادارے 'ایشیا سوسائٹی' کے سینئر فیلو آئزک اسٹون فش نے 'واشنگٹن پوسٹ' اپنے کالم میں لکھا ہے کہ 1946 میں ریلیز ہونے والی فلم 'سانگ آف دی ساؤتھ' کے بعد اب 'مولان' ڈزنی کی سب سے زیادہ مسئلہ بننے والی فلم ہے۔

ڈزنی نے اینڈ کریڈٹس میں سنکیانگ کے چار پروپیگنڈا ڈپارٹمنٹس اور پبلک سیکیورٹی بیورو کا شکریہ ادا کیا ہے۔

سنکیانگ چین کے شمال مغرب میں واقع وہ علاقہ ہے جو آج انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کرنے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔

میلبرن میں رہائش پذیر چین کی حکومت کے ناقد فنکار بدیوکاؤ کا کہنا ہے کہ وہ ایک نئی کارٹون فلم پر کام کر رہے ہیں جس میں 'مولان' کو جبری کیمپوں کے محافظ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ جو دراصل ڈزنی کی نئی فلم پر ایک طنز ہے۔

ان کے بقول یہ واضح ہے اور اس بارے میں تمام ثبوت موجود ہیں کہ سنکیانگ میں کیا ہو رہا ہے۔

انہوں نے ڈزنی پر دہرے معیار کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ 'می ٹو' اور 'بلیک لائیوز میٹر' جیسی سماجی انصاف کی تحاریک کو تو اپنایا جا رہا ہے، لیکن چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کر لی گئی ہیں۔

فلم 'مولان' کو عالمی تھیٹرز میں رواں برس مارچ میں ریلیز ہونا تھا لیکن اس میں کرونا وائرس کے باعث تاخیر ہوئی۔

ڈزنی نے گزشتہ ہفتے ڈزنی پلس چینل پر یہ فلم نمائش کے لیے پیش کی ہے۔

فلم کی نمائش کے بعد ہالی وڈ پر چین سے تعلقات کے حوالے سے منافقت کے الزام عائد کیے جا رہے ہیں۔

اگست میں اینٹی سینسر شپ گروپ 'پین امریکن' نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسکرین رائٹرز، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز چین کی سینسر شپ سے بچنے کے لیے اکثر اوقات اسکرپٹ بدل دیتے ہیں۔ مناظر کو ہذف اور کہانی میں رد و بدل کر دی جاتی ہے۔

اسی طرح عنقریب ریلیز ہونے والی فلم 'ٹاپ گن: میورک' میں فلم کے ہیرو ٹام کروز کی جیکٹ سے تائیوان کا جھنڈا مٹا دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2013 کی 'ورلڈ وار زی' میں چین کو زومبی وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بتایا گیا تھا، لیکن بعد میں اسے تبدیل کر دیا گیا تھا۔ جب کہ بہت سے حساس معاملات مثلاً تبت، تائیوان، ہانگ کانگ کی سیاست اور سنکیانگ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔

اس معاملے پر ڈزنی کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

چین نے ​مبینہ فرقہ وارانہ بدامنی اور ایغور جنگجوؤں کے حملوں کے بعد خطے میں سخت سیکیورٹی کریک ڈاؤن کیا اور حراستی مراکز قائم کیے۔

ابتدا میں بیجنگ نے ان کیمپوں کی موجودگی سے انکار کیا۔ لیکن بعد میں انہیں بحالیٔ تعلیم کے رضاکارانہ مراکز قرار دیا۔

سنکیانگ تنازع سے قبل ہی حالیہ ہفتوں میں سوشل میڈیا پر ہانگ کانگ، تھائی لینڈ اور تائیوان میں 'بائیکاٹ مولان' کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا تھا۔

ان تینوں ممالک میں متعدد آن لائن مہمات لانچ کی گئیں جن میں چین کی حاکمیت پر تنقید کی گئی ہے۔