امریکی سفیر کیمرون منٹر نے پاکستان کی وزیرخارجہ حنا ربانی کھر سے منگل کو اسلام آباد میں ملاقات کی ہے جس میں دوطرفہ تعلقات بالخصوص نیٹو حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا۔
پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں نیٹو کے فضائی حملے سے متعلق امریکی تحقیقاتی رپورٹ پر اختلافات کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات میں پائے جانے والے تناؤ میں بظاہر اضافہ ہوا ہے اور اس تناظر میں کیمرون منٹر کی پاکستانی وزیر خارجہ سے پہلی ملاقات تھی۔
ایک روز قبل پاکستانی فوج نے نیٹو حملے سے متعلق امریکی رپورٹ میں کیے گئے انکشافات کو حقیقت کے منافی قرار دیتے ہوئے پینٹاگون کے موقف کو مسترد کر دیا تھا۔ مہمند حملے کے بارے میں پاکستانی فوج نے اپنے مفصل جواب میں کہا ہے کہ امریکی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس واقعے کے جزوی ذمہ داری پاکستان پر بھی عائد ہوتی ہے جو ’’بلاجواز اور ناقابل قبول‘‘ ہے۔
لیکن امریکی محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ نے پینٹاگون کی تحقیقاتی رپورٹ کی ’’سو فیصد‘‘ حمایت کرتے ہوئے اس موقف کو دہرایا ہے کہ نومبر 26 کو کی گئی فضائی کارروائی امریکی افواج نے اپنے دفاع میں کی تھی۔
نیٹو حملے کے خلاف اپنے سخت ردعمل میں حکومتِ پاکستان نے اپنی سرزمین کے راستے اتحادی افواج کے لیے رسد کی ترسیل پر پابندی عائد کر رکھی ہے جب کہ بلوچستان میں شمسی ایئر بیس کو بھی امریکہ سے خالی کروایا جا چکا ہے۔
کابینہ اور پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے فیصلوں کی روشنی میں امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے اور مستقبل میں ان سے تعاون کی نئی شرائط وضع کرنے کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس فروری میں بلایا جائے گا جس میں قومی سلامتی کی کمیٹی کی سفارشات کی حتمی منظوری دی جائے گی۔
پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی مارک گراسمین نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد کا دورہ کرنا تھا لیکن پاکستانی حکام نے انھیں یہ کہہ کر روک دیا کہ امریکہ کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کے تعین کے لیے پارلیمانی عمل جاری ہے اس لیے وہ یہ دورہ نا کریں۔