عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بنچ کے سامنے ابتدائی دلائل دیتے ہوئے پرویز مشرف کے وکیل نے استدعا کی کہ ان کے موکل انتخابی مہم میں مصروف ہیں اس لیے ان تمام درخواستوں کی سماعت انتخابات کے بعد کی جائے۔
اسلام آباد —
پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کے دوسرے روز منگل کو سابق صدر کے وکیل احمد رضا قصوری نے سپریم کورٹ میں کہا کہ یہ درخواستیں ’’بد نیتی‘‘ پر مبنی ہیں اور ان کا مقصد ان کے موکل کو انتخابی عمل میں شرکت کرنے سے روکنا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بنچ کے سامنے ابتدائی دلائل دیتے ہوئے انھوں نے استدعا کی کہ ان کے موکل انتخابی مہم میں مصروف ہیں اس لیے ان تمام درخواستوں کی سماعت انتخابات کے بعد کی جائے۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’’اِن تمام سیاسی ’مسخروں‘ میں آپس کےاندر شدید اختلافات ہیں۔ مگر، جب مشرف کی بات آتی ہے تو یہ یکجا ہو جاتے ہیں، کیونکہ مشرف کا دور اِن سے قدرے بہتر تھا۔ اِن کے دور میں تو غربت و افلاس ہی رہا۔ اس لیے مشرف کےخلاف جھوٹے مقدمے چلائےجاتے ہیں۔‘‘
احمد قصوری کی درخواست عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کی بذات خود اس مقدمے میں پیش ہونے کی ضرورت اب تک محسوس نہیں کی گئی اور اس لیے ان کی انتخابی مہم کے متاثر ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
سابق صدر کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ اس مقدمے کو آگے چلانے سے اس معاملے میں شریک کئی سابق اور حاضر فوجی افسران کے نام بھی سامنے آئیں گے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو اس سے کوئی غرض نہیں اور عدالت کا کام صرف انصاف کرنا ہے۔
’’اگر کوئی ’پنڈورہ بکس‘ کھلنا ہے تو کھلے۔ جس کا نام سامنے آتا ہے تو آئے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ پرویز مشرف کو اپنے دفاع کا مکمل قانونی حق دیا جائے گا اور اگر وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ ان کے اقدامات غیر آئینی نا تھے تو ان کے خلاف درخواستیں خارج کر دی جائیں گے۔
پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی سیکرٹری اطلاعات آسیہ اسحاق نے بتایا کہ ان کی جماعت کے 200 سے زائد امیدوار آئندہ انتخابات حصہ لے رہے ہیں۔
’’پرویز مشرف عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے آئے ہیں، اگر یہ سماعت انتخابات کے بعد ہو جاتی تو کیا ہرج تھا۔ اب ایک ایسے معاملے کو اٹھانا جس میں آرمی اور عدلیہ آ جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چند قوتیں ہیں جو پاکستان میں استحکام نہیں چاہتیں یا پاکستان کو انتخابات سے دور کرنا چاہتی ہیں تاکہ عوام کی آواز پارلیمنٹ میں نا پہنچ سکے‘‘۔
سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلوں میں سابق صدر مشرف کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا جا چکا ہے مگر سن 2008 میں صدارت کا منصب چھوڑنے کے بعد سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ عدالت عظمیٰ میں پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔
حال ہی میں اس بارے میں عدالت عظمیٰ میں پانچ نئی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ ایک درخواست گزار وکیل احسان الدین کہتے ہیں کہ ’’سابق صدر مشرف نے جس قدر پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے کوئی تصور نہیں کر سکتا۔‘‘
سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کو وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے آگاہ کیا کہ سابق صدر مشرف کا نام ان افراد کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے جن پر پاکستان کی سر زمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جانے کی پابندی عائد ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت 15 اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بنچ کے سامنے ابتدائی دلائل دیتے ہوئے انھوں نے استدعا کی کہ ان کے موکل انتخابی مہم میں مصروف ہیں اس لیے ان تمام درخواستوں کی سماعت انتخابات کے بعد کی جائے۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’’اِن تمام سیاسی ’مسخروں‘ میں آپس کےاندر شدید اختلافات ہیں۔ مگر، جب مشرف کی بات آتی ہے تو یہ یکجا ہو جاتے ہیں، کیونکہ مشرف کا دور اِن سے قدرے بہتر تھا۔ اِن کے دور میں تو غربت و افلاس ہی رہا۔ اس لیے مشرف کےخلاف جھوٹے مقدمے چلائےجاتے ہیں۔‘‘
احمد قصوری کی درخواست عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کی بذات خود اس مقدمے میں پیش ہونے کی ضرورت اب تک محسوس نہیں کی گئی اور اس لیے ان کی انتخابی مہم کے متاثر ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
سابق صدر کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ اس مقدمے کو آگے چلانے سے اس معاملے میں شریک کئی سابق اور حاضر فوجی افسران کے نام بھی سامنے آئیں گے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو اس سے کوئی غرض نہیں اور عدالت کا کام صرف انصاف کرنا ہے۔
’’اگر کوئی ’پنڈورہ بکس‘ کھلنا ہے تو کھلے۔ جس کا نام سامنے آتا ہے تو آئے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ پرویز مشرف کو اپنے دفاع کا مکمل قانونی حق دیا جائے گا اور اگر وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ ان کے اقدامات غیر آئینی نا تھے تو ان کے خلاف درخواستیں خارج کر دی جائیں گے۔
پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی سیکرٹری اطلاعات آسیہ اسحاق نے بتایا کہ ان کی جماعت کے 200 سے زائد امیدوار آئندہ انتخابات حصہ لے رہے ہیں۔
’’پرویز مشرف عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے آئے ہیں، اگر یہ سماعت انتخابات کے بعد ہو جاتی تو کیا ہرج تھا۔ اب ایک ایسے معاملے کو اٹھانا جس میں آرمی اور عدلیہ آ جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چند قوتیں ہیں جو پاکستان میں استحکام نہیں چاہتیں یا پاکستان کو انتخابات سے دور کرنا چاہتی ہیں تاکہ عوام کی آواز پارلیمنٹ میں نا پہنچ سکے‘‘۔
سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلوں میں سابق صدر مشرف کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا جا چکا ہے مگر سن 2008 میں صدارت کا منصب چھوڑنے کے بعد سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ عدالت عظمیٰ میں پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔
حال ہی میں اس بارے میں عدالت عظمیٰ میں پانچ نئی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ ایک درخواست گزار وکیل احسان الدین کہتے ہیں کہ ’’سابق صدر مشرف نے جس قدر پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے کوئی تصور نہیں کر سکتا۔‘‘
سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کو وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے آگاہ کیا کہ سابق صدر مشرف کا نام ان افراد کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے جن پر پاکستان کی سر زمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جانے کی پابندی عائد ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت 15 اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔