جسمانی ریمانڈ کے خاتمے پر پرویز مشرف کو منگل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جانا تھا لیکن ایف آئی اے کے وکیل چوہدری ذوالفقار نے بتایا کہ سلامتی کے خدشات کے باعث اُنھیں عدالت میں نہیں لایا گیا۔
اسلام آباد —
پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل کے مقدمے میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو چودہ دن کے عدالتی ریمانڈر پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔
وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ سابق صدر کی اسلام آباد میں رہائش گاہ کو پہلے ہی ’سب جیل‘ قرار دے چکی ہے اور اُنھیں وہیں رکھا جائے گا۔
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں گزشتہ ہفتے سابق صدر پرویز مشرف کو چار روزہ جسمانی ریمانڈر پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے حوالے کر دیا تھا۔
جسمانی ریمانڈ کے خاتمے پر پرویز مشرف کو منگل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جانا تھا لیکن ایف آئی اے کے وکیل چوہدری ذوالفقار نے بتایا کہ سلامتی کے خدشات کے باعث اُنھیں عدالت میں نہیں لایا گیا۔
’’وزرارت داخلہ نے ایک حکم نامہ بھی جاری کیا ہوا ہے کہ اُنھیں (پرویز مشرف) کو خطرہ ہے اسی وجہ سے اُنھیں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔‘‘
ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم بے نظیر بھٹو قتل کیس میں سابق فوجی صدر سے تفتیش کے لیے ’سب جیل‘ میں اُن سے متعدد بار ملاقات کر چکی ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے وکیل چوہدری ذوالفقار نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ سابق فوجی صدر کے خلاف اس مقدمے میں ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں۔
’’مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کافی ٹھوس شہادتیں سامنے لائی ہے…. ملزم پرویز مشرف نے اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔‘‘
سابق صدر پرویز مشرف چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے گزشتہ ماہ پاکستان آئے تھے۔ اُنھیں بے نظیر بھٹو قتل کیس کے علاوہ اعلٰی عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کرنے اور قوم پرست بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل میں ملوث ہونے سے متعلق مقدمات کا سامنا ہے۔
پرویز مشرف اپنے خلاف الزامات کی نفی کرتے ہیں۔
پاکستان کے سابق فوجی صدر کو 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے سے متعلق ایک اور مقدمے کا بھی سامنا ہے جس کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔
عدالت عظمٰی میں دائر ان درخواستوں میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ نگراں حکومت کو حکم دے کہ وہ سابق صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا آغاز کرے۔
لیکن عبوری حکومت عدالت میں یہ بیان دے چکی ہے کہ ایسا کرنا اس کے دائر اختیار میں نہیں اس لیے اس معاملے کو آئندہ انتخابات کے بعد منتخب ہونے والے حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔
وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ سابق صدر کی اسلام آباد میں رہائش گاہ کو پہلے ہی ’سب جیل‘ قرار دے چکی ہے اور اُنھیں وہیں رکھا جائے گا۔
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں گزشتہ ہفتے سابق صدر پرویز مشرف کو چار روزہ جسمانی ریمانڈر پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے حوالے کر دیا تھا۔
جسمانی ریمانڈ کے خاتمے پر پرویز مشرف کو منگل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جانا تھا لیکن ایف آئی اے کے وکیل چوہدری ذوالفقار نے بتایا کہ سلامتی کے خدشات کے باعث اُنھیں عدالت میں نہیں لایا گیا۔
’’وزرارت داخلہ نے ایک حکم نامہ بھی جاری کیا ہوا ہے کہ اُنھیں (پرویز مشرف) کو خطرہ ہے اسی وجہ سے اُنھیں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔‘‘
ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم بے نظیر بھٹو قتل کیس میں سابق فوجی صدر سے تفتیش کے لیے ’سب جیل‘ میں اُن سے متعدد بار ملاقات کر چکی ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے وکیل چوہدری ذوالفقار نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ سابق فوجی صدر کے خلاف اس مقدمے میں ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں۔
’’مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کافی ٹھوس شہادتیں سامنے لائی ہے…. ملزم پرویز مشرف نے اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔‘‘
سابق صدر پرویز مشرف چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے گزشتہ ماہ پاکستان آئے تھے۔ اُنھیں بے نظیر بھٹو قتل کیس کے علاوہ اعلٰی عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کرنے اور قوم پرست بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل میں ملوث ہونے سے متعلق مقدمات کا سامنا ہے۔
پرویز مشرف اپنے خلاف الزامات کی نفی کرتے ہیں۔
پاکستان کے سابق فوجی صدر کو 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے سے متعلق ایک اور مقدمے کا بھی سامنا ہے جس کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔
عدالت عظمٰی میں دائر ان درخواستوں میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ نگراں حکومت کو حکم دے کہ وہ سابق صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا آغاز کرے۔
لیکن عبوری حکومت عدالت میں یہ بیان دے چکی ہے کہ ایسا کرنا اس کے دائر اختیار میں نہیں اس لیے اس معاملے کو آئندہ انتخابات کے بعد منتخب ہونے والے حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔