سابق فوجی صدر کا کہنا تھا کہ ان پر پہلے بھی جان لیوا حملے ہو چکے ہیں لیکن وہ ڈرنے والوں میں سے نہیں ہیں لیکن ہر کسی کو اپنی حفاظت کا خیال رکھنا چاہیے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے اور نہ ہی انھیں زبانی دھمکیوں سے ڈرایا جا سکتا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے اپنے ایک تازہ پیغام میں کہا ہے کہ پرویز مشرف کے پاکستان پہپنچنے پر ان پر حملے کے لیے خودکش بمبار اور ماہر نشانہ باز بھیجے جائیں گے۔
ہفتہ کو دبئی میں ایک پریس کانفرس سے خطاب میں پرویز مشرف نے طالبان کی اس دھمکی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی کو پہلے بھی خطرات کا سامنا رہا ہے اور وہ ان سے گھبراتے نہیں۔
’’میں ایسی دھمکیوں سے نہیں ڈرتا یہ تو 2001ء سے ہیں اور اگر میں ڈرتا تو اس وقت ہی بھاگ چکا ہوتا۔ لوگ نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر بھی دھمکاتے رہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ان پر پہلے بھی جان لیوا حملے ہو چکے ہیں لیکن وہ ڈرنے والوں میں سے نہیں ہیں لیکن ہر کسی کو اپنی حفاظت کا خیال رکھنا چاہیے۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ قواعد وضوابط کے مطابق حکومت کو اُنھیں سکیورٹی فراہم کرنا ہو گی وہ توقع رکھتے ہیں کہ انھیں سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔
’’میں نے انھیں (حکومت) خط بھی لکھا ہے کہ مجھے وہ سکیورٹی دی جائے جو بحیثیت سابق صدر مجھے ملنی چاہیے، لیکن میں صرف اُسی پر انحصار نہیں کروں گا، میری اپنی بھی سکیورٹی ہے۔‘‘
اگست 2008ء میں عہدہ صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد پرویز مشرف اپریل 2009ء میں بیرون ملک منتقل ہوگئے اور اس کے بعد سے ان کا زیادہ وقت متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں گزرا۔
2010ء میں انھوں نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی جو کہ 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔
پرویز مشرف نے حال ہی میں ایک بار پھر وطن واپس آنے کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق وہ 24 مارچ کو کراچی پہنچ رہے ہیں۔
پاکستان میں انھیں متعدد مقدمات کا سامنا ہے لیکن ایک روز قبل سندھ ہائی کورٹ نے تین مقدمات میں ان کی حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔ ان میں ججز کیس، بینظیر بھٹو قتل کیس اور بزرگ قوم پرست بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمات شامل ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے اپنے ایک تازہ پیغام میں کہا ہے کہ پرویز مشرف کے پاکستان پہپنچنے پر ان پر حملے کے لیے خودکش بمبار اور ماہر نشانہ باز بھیجے جائیں گے۔
ہفتہ کو دبئی میں ایک پریس کانفرس سے خطاب میں پرویز مشرف نے طالبان کی اس دھمکی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی کو پہلے بھی خطرات کا سامنا رہا ہے اور وہ ان سے گھبراتے نہیں۔
’’میں ایسی دھمکیوں سے نہیں ڈرتا یہ تو 2001ء سے ہیں اور اگر میں ڈرتا تو اس وقت ہی بھاگ چکا ہوتا۔ لوگ نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر بھی دھمکاتے رہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ان پر پہلے بھی جان لیوا حملے ہو چکے ہیں لیکن وہ ڈرنے والوں میں سے نہیں ہیں لیکن ہر کسی کو اپنی حفاظت کا خیال رکھنا چاہیے۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ قواعد وضوابط کے مطابق حکومت کو اُنھیں سکیورٹی فراہم کرنا ہو گی وہ توقع رکھتے ہیں کہ انھیں سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔
’’میں نے انھیں (حکومت) خط بھی لکھا ہے کہ مجھے وہ سکیورٹی دی جائے جو بحیثیت سابق صدر مجھے ملنی چاہیے، لیکن میں صرف اُسی پر انحصار نہیں کروں گا، میری اپنی بھی سکیورٹی ہے۔‘‘
اگست 2008ء میں عہدہ صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد پرویز مشرف اپریل 2009ء میں بیرون ملک منتقل ہوگئے اور اس کے بعد سے ان کا زیادہ وقت متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں گزرا۔
2010ء میں انھوں نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی جو کہ 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔
پرویز مشرف نے حال ہی میں ایک بار پھر وطن واپس آنے کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق وہ 24 مارچ کو کراچی پہنچ رہے ہیں۔
پاکستان میں انھیں متعدد مقدمات کا سامنا ہے لیکن ایک روز قبل سندھ ہائی کورٹ نے تین مقدمات میں ان کی حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔ ان میں ججز کیس، بینظیر بھٹو قتل کیس اور بزرگ قوم پرست بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمات شامل ہیں۔