ایلون مسک نے بدھ کے روز کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ ان کی کمپنی نیورالنک کی تیار کردہ" وائرلیس برین چپ" پر چھ ماہ میں انسانی طبی آزمائشیں شروع کر دی جائیں گی، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس سےمعذور مریضوں کو حرکت کرنے اور دوبارہ بات چیت کرنے میں مدد مل سکتی ہے،اور اس سے بصارت کی بحالی کی راہ بھی ہموار ہو گی ۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے بتایا ہے کہ ٹیکساس میں قائم نیورالنک حالیہ برسوں میں جانوروں پر ٹیسٹ کررہی ہے کیونکہ وہ لوگوں میں طبی آزمائشیں شروع کرنے کے لیے امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) سے منظور ی کی منتظرہے۔
مسک نے ڈیوائس پر ایک عوامی اپ ڈیٹ کے دوران کہا، ’’اس ڈیوائس کو کسی انسان پر استعمال کرنے سے پہلے ہم انتہائی محتاط ہیں اوریہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہ چپ اچھی طرح کام کرے گی۔‘‘
رائٹرز نے اپنے ٹوئٹر پر مسک کی اس پریذنٹیشن کی ویڈیو کو شئیر کی ہے ۔جس میں خبر رساں ادارے کے مطابق برین امپلانٹ کمپنی نیورالنک کے ایک ایونٹ میں، ایک بندرٹیلی پیتھک طریقے سے ٹائپ کر رہاہے۔
نیورالنک ہیڈ کوارٹر میں تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہنے والی ایک پریذنٹیشن میں بات کرتے ہوئے، مسک نے اس رفتار پر زور دیا جس پر کمپنی اپنا آلہ تیار کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "ابتدا میں پیش رفت، خاص طور پر انسانوں پر اطلاق کے حوالے سے، شاید تکلیف دہ حد تک سست نظر آئے گی، لیکن ہم اسے بہتر بنانے کے لیےسب کچھ کر رہے ہیں۔لہذا، نظریہ یہ ہے کہ، پیش رفت طاقتور ہونی چاہیے۔"
ایف ڈی اے نے کہا ہےکہ وہ امکانی پروڈکٹ ایپلی کیشنز کےاسٹیٹس یا موجودگی پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔ تاہم مسک نے کہا ہے کہ انہیں چھ ماہ میں ٹرائلز کی اجازت مل جانے کی توقع ہے۔
مسک نے کہا کہ نیورالنک ڈیوائس کے ذریعے انسانی تجربات کے سلسلے میں جن پہلے دو اہداف پر کام ہو گا وہ بصارت کی بحالی اور ان لوگوں میں پٹھوں کی نقل و حرکت کو فعال کرنا ہو گا جو ایسا نہیں کر سکتے۔
ان کے اس بیان پر متعدد ٹوئٹس میں خوشی کا اظہار بھی کیا گیا ہے اور شکوک کا بھی۔
انہوں نے کہا، "ہمیں یقین ہے کہ اس ڈیوائس کی مدد سے پیدائشی طور پر نا بینا کی بینائی بھی بحال ہو سکے گی۔
یہ تقریب اصل میں 31 اکتوبر کو منعقد ہونا تھی لیکن مسک نے بغیر وجہ بتائے چند دن پہلے اسے ملتوی کر دیا۔
ایک سال سے بھی زیادہ پہلے، نیورالنک نے جو ویڈیو جاری کی تھی اس میں ایک بندر کو سوچ بچار کے ساتھ کمپیوٹر گیم کھیلتے ہوئے دکھایا گیا تھا جس کے دماغ میں چپ لگائی گئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
مسک، جو الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹیسلا، راکٹ فرم سپیس ایکس، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر بھی چلاتے ہیں، مریخ پر انسانی بستی قائم کرنے کی جستجو اور انسانیت کو بچانے جیسے بلند و بالا عزائم کے لیے معروف ہیں ۔
2016 میں قائم کی جانے والی نیورالنک کے لیے بھی ان کے یہی عزائم ہیں۔
مسک ایک ایسی چپ تیار کرنا چاہتے ہیں جس سے دماغ پیچیدہ الیکٹرانک آلات کو کنٹرول کر سکے گا اور بالآخر فالج کے شکار افراد کو حرکت کرنے کی اہلیت دوبارہ حاصل کرنے، اور پارکنسنز، ڈیمنشیا اور الزائمر جیسے دماغی امراض کا علاج کرناممکن ہو سکے گا اور وہ مصنوعی ذہانت کے دماغ کے امتزاج کی کی مدد کے ساتھ بات بھی کر سکیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم نیورالنک،اپنے شیڈول سے پیچھےہے۔ مسک نے 2019 کی ایک پریذنٹیشن میں کہا تھا کہ وہ 2020 کے آخر تک ریگولیٹری منظوری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے 2021 کے آخر میں ایک کانفرنس میں کہا کہ وہ اس سال انسانوں پر تجربات شروع کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
رائٹرز نے اگست میں رپورٹ کیا تھا کہ مسک نے نیورالنک کے ملازمین کی سست پیش رفت کے بارے میں مایوسی کا اظہار کرنے کے بعد اس سال کے شروع میں اپنی حریف کمپنی " سنکرون "سے کسی ممکنہ سرمایہ کاری کے بارے میں رابطہ کیا تھا۔
سنکرون نے جولائی میں پہلی بار امریکہ میں ایک مریض میں اپنا آلہ لگا کر ایک اہم سنگ میل عبور کیاہے۔ اسے 2021 میں انسانوں پر تجربات کے لیے امریکہ کی ریگولیٹری کلیئرنس ملی تھی اور اس نے آسٹریلیا میں چار افراد پر ریسرچ مکمل کی ہے۔
یہ رپورٹ رائٹرز کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے۔