امریکہ میں رواں سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے جاری نامزدگی کی مہم میں مسلمانوں اور اسلام کے متعلق سامنے والے بیانات کی وجہ سے ان کے خلاف ابھرنے والے تاثر پر مسلمان برادری کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا ہا ہے۔
تاہم مسلمان مذہبی رہنماؤں کا موقف ہے مسلمان بھی اسی طرح امریکی شہری ہیں جس طرح دوسرے ہیں اور اپنے طور پر اس تاثر کو دور کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بیانات کی وجہ سے نا صرف عام امریکی مسلمان متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس سے امریکہ میں رہنے والی مسلمان عورتوں اور بچوں پر بھی اس کی نفساتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
امریکی ریاست ایلینوئے میں شکاگو کے نواح میں واقع السٹن کے مسلم کمیونٹی سنٹر سے وابستہ سیف مظہر تارکین وطن نہیں بلکہ وہ شکاگو کے ںواح میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے تاہم ان کے بقول وہ ہمیشہ سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں (یہاں) قبول نہیں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "میراخیال ہے کہ لوگ مجھے مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ جب میں کسی سٹور یا ریستواران میں جاتا ہوں تو میں بعض اوقات اپنے سر کو نیجے جھکا لیتا ہوں تاکہ لوگ مجھے اس طرح نہ دیکھیں جس طرح کسی دہشت گرد کو دیکھتے ہیں یا وہ ایک دہشت گرد نظر آتا ہے "
اس طرح کا تاثر عمران کمال مفتی کا بھی ہے جو شکاگو سے ایک سو میل جنوب مغرب میں واقع شہر پیوریا کے علاقے کے اسلامک فاؤنڈیشن کے امام ہیں۔
ان کہنا ہے کہ "ایسے بیانات آرہے ہیں جیسے 'تمام مسلمان دہشت گرد ہیں' یا مسلمان 9/11 کے دن خوشی مناتے ہیں (جو کہ امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملے کی برسی ہے) یا مسلمان کوئی دھماکا کرنا چاہتے ہیں"۔
مفتی کا کہنا ہے کہ "سب سے دلخراش واقعات کا سامنا اسکول کے بچوں میں دیکھنے میں آتے ہیں ۔ یہ معمول کی غنڈہ گردی نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کو نفسیاتی طور پر متاثر کرتی ہے"۔
ان کے بقول اسلام فوبیا ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے اور وہ اس کا ذمہ دار امریکی صدارتی مہم کو قرار دیتے ہیں۔ "ہمیں جو اعدادوشمار اور عوامی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام فوبیا کسی دہشت گرد حملے کے بعد اتنا نظر نہیں آتا ہے الیکشن کے دنوں میں اس کا بہت چرچا ہوتا ہے"۔
رواں سال ہونے والے امریکی صدراتی انتخابات کی نامزدگی کی مہم میں مسلمانوں کے متعلق متنازع بیانات نظر آتے ہیں۔
ریپبلکننز کی طرف سے صدارتی امیدوار نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں سرفہرست ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلمانوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کے مطالبہ کے ساتھ دوسرے متنازع بیانات بھی دیے گئے ۔
سیف مظہر کو اس بارے میں سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ سخت زبان سخت تر رویوں کا باعث بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "وہ لوگ جو پہلے خاموش تھے اب کھل کر بات کر رہے ہیں۔ وہ اب اس پر زیادہ بات کر رہے ہیں اور میرے خیال میں وہ دوسرے امریکی شہریوں کے ذہنوں کو بھی متاثرکر رہے ہیں"۔
اس طرح کے بیانات سامنے آنے کے بعد بجائے ان کو درگزر کرنے کے عمران مفتی نے کچھ عملی اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
قبل ازیں مارچ میں مفتی نے پیورریا کی اسلامک فاؤنڈیشن میں بین الامذاہب تقریب منعقد کی جس کا عنوان تھا " اسلام کو جانیے اور امن کو جانیے:۔ اس میں وسطی ایلینوئے میں بین الامذاہب اتحاد سے تعلق رکھنے والے کئی مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی اور انہوں نے برداشت اور احترام کے تصورات کے بارے میں بات کی۔
عمران مفتی کا کہنا ہے کہ "مساجد ایسی جگہیں نہیں ہیں جہاں لوگوں کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا اور نا ہی یہ بند جگہیں ہیں۔ یہ کھلی جگہیں ہیں اور یہاں مسلمان مساجد میں عبادت کرتے ہیں، ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور کھیلتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں"۔
سیف مظہر کا کہنا ہے کہ "ہم سب امریکی ہیں۔ ہم امریکہ سے محبت کرتے ہیں اور ہم امریکہ کا حصہ ہیں"۔