برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ برطانوی مسلمان نوجوانوں میں بنیاد پرستی کے مقابلے اور تارکین وطن مسلم برادریوں کے اندر الگ تھلگ رہنے کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مسلمان خواتین کو انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے پیر کے روز نئی پالیسیوں کے ایک سلسلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تارکین وطن مسلمان خواتین کو انگریزی میں بہتری لانی ہو گی ورنہ انھیں ملک سے بے دخل ہونے کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے تسلیم کیا ہے کہ سخت پالیسیوں کی وجہ سے خاندانوں کو ٹوٹتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ تبدیلیاں شادی کے بعد اسپاؤز ویزے کے تحت برطانیہ آنے والی تارکین وطن مسلمان خواتین پر اکتوبر سے لاگو ہو جائیں گی۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی طرف سے ملک میں انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے میں مسلم برادریوں کی مدد کرنے کے لیے جو پالیسیاں متعارف کرائی گئی ہیں ان میں بنیادی طور مسلمان خواتین کو انگریزی سکھانے کےحوالے سے سرکاری منصوبے کی تفصیلات پیش کی گئیں۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بی بی سی ریڈیو فور ٹوڈے کے ایک پروگرام میں بتایا کہ نئے منصوبے کے تحت قوانین کو سخت کیا جائے گا اور تارکین وطن مسلمان خواتین کو انگریزی سیکھنے پر مجبور کیا جائےگا ورنہ انھیں ملک سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس منصوبے کے فروغ کے سلسلے میں وزیر اعظم نے پیر کو لیڈز میں واقع مکہ مسجد اور مسلمان عورتوں کے ایک سینٹر کا دورہ کیا، جہاں انھوں نے مسلم خواتین کے ساتھ ان تجاویز پر بات چیت کی۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے مسلمان خواتین کو انگریزی سیکھانے کے لیے دو کروڑ پاؤنڈ کا خصوصی فنڈ جاری کیا ہے جو انگریزی کی خصوصی کلاسوں پر خرچ کیا جائے گا۔
وزیر اعظم نے اپنے نقطئہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کا مقصد برطانیہ میں مذہبی علیحدگی کے رویے کو ختم کرنا ہے اور مسلمان خواتین کو مرکزی دھارے میں شامل کمیونٹی میں ضم ہونے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ خراب انگریزی انتہا پسندی کا سبب نہیں ہے لیکن انگریزی زبان کے اسباق سیکھانے کا مقصد ایک مضبوط معاشرے کی تشکیل کرنا ہے۔
انھوں نے اپنی تجاویز کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اسپاؤز ویزے کے تحت جو مسلمان خواتین برطانیہ آتی ہیں۔ انھیں ڈھائی سال بعد انگریزی زبان میں اپنی مہارت کو ظاہر کرنا ہو گا جس کے لیے ان سے ایک ٹیسٹ لیا جائے گا۔
فی الحال پانچ سالہ اسپاؤز ویزے کے تحت برطانیہ آنے والے لوگوں کو بنیادی انگریزی کا ایک امتحان پاس کرنا پڑتا ہے۔
حکومت کے مطابق برطانیہ میں تقریباً 22 فیصد مسلمان خواتین بہت تھوڑی انگریزی جانتی ہیں اور یہی عنصر ان کی تنہائی کا سبب بنتا جا رہا ہے۔
جب وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے سوال پوچھا گیا کہ کیا ایک عورت جو برطانیہ میں اسپاؤز ویزے کے تحت آتی ہے اور اس کے بچے ہیں اس کے باوجود کیا اسے جلاوطن کیا جا سکتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ہم اسپاؤز پروگرام کو سخت کر رہے ہیں۔
"اس لیے ان کےحالات اس بات کی ضمانت نہیں بن سکتے ہیں کہ وہ یہاں رہنے کے قابل ہو گئی ہیں اسی لیے انھیں ڈھائی برس میں انگریزی اچھی طرح سے سیکھنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔"
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے بچوں کو ان کی ماؤں سے الگ ہوتا دیکھا جا سکتا ہے۔
برطانوی مسلمان خواتین جو چہرے پر نقاب لیتی ہیں ان کےحوالے سے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ برطانیہ میں مکمل نقاب پر پابندی نہیں لگانا چاہتے ہیں لیکن، جہاں سرکاری یونیفارم کی پالیسی ہے وہاں خواتین کو چہرے سے پردہ ہٹا دینا چاہیئے۔
انھوں نے مزید کہا کہ عام طور پر ہمارے ملک میں لوگ اپنی پسند کا لباس پہننے اور عوامی حدود کے اندر اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے لیے آزاد ہیں۔ لیکن، اہم بات یہ ہے کہ جہاں چہرہ دکھانا ضروری ہے مثلاً اسکول یا عدالتوں میں وہاں چہرے کو نقاب میں نہیں رکھنا چاہیئے۔
ڈیوڈ کیمرون نے ملک کی مذہبی کونسلوں اور شرعی عدالتوں کے کردار کا بھی تفصیلی جائزہ لینے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد ان اداروں کی مدد سے عورتوں کو تنہائی میں رکھنے والے مردوں کے رویے سے نمٹنے میں مدد حاصل کرنا ہے۔