سانتا کلارا، امریکی ریاست کیلیفیورنیا کے شہر سان فرانسسکو کے قریب واقع علاقے بے ایریا کا حصہ ہے جو ٹیکنالوجی کی دنیا میں سیلیکون ویلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں، بعض اندازوں کے مطابق، مسلمانوں کی آبادی تقریباً ڈھائی لاکھ کے قریب ہے، جبکہ سانتا کلارا شہر میں دس سے بارہ ہزار مسلمان آباد ہیں۔
ڈاکٹر محمد ندیم امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سانتا کلارا کی سٹی کونسل کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں. جو اس شہر کی تاریخ میں سیاسی طور پر سامنے آنے والے نا صرف پہلے غیر سفید فام امیدوار ہیں، بلکہ پہلے مسلمان بھی ہیں۔
ڈاکٹر ندیم کہتے ہیں کہ ’’میرے لیے، اس شہر کی سیاست میں آنا ایک قدرتی عمل تھا، کیونکہ یہاں ایک مسلمان کے طور پر جب آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، ٹیلی ویژن پر کیا دکھایا جا رہا ہے۔۔ میں یہاں مسلمان کمیونٹی کے لوگوں کو متحرک کرنا چاہتا ہوں کہ سانتا کلارا، کیلی فورنیا اور امریکہ کے ایک شہری کے طور پر، ہمارا فرض ہے کہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں اور سب کے ساتھ چلیں‘‘۔
ندیم کہتے ہیں کہ بے ایریا میں بسنے والی مسلمان کمیونٹی متمول ہے۔ لیکن، ان کی سیاسی اور شہری سطح پر نمائندگی بلکل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہےکہ انھوں نے اس بارے میں سوچا۔
بقول اُن کے، ’’میرے خیال میں، ایک مسلمان امریکی کے طور پر یہ ٹھیک نہیں کہ آپ اس دھارے سے دور رہیں۔ سب سے پہلے ہمیں باہر نکلنا چاہیئے اور ووٹ کرنا چاہیئے۔ انتخاب کو جو حق ہمارے پاس ہے اس کو استعمال کرنا چاہیئے۔ یہ اہم ہے‘‘۔
ندیم حالیہ الیکشن اور اس میں ہونے والی باتوں پر کہتے ہیں کہ پورے امریکہ میں مسلمان ایک منفرد تجربے سے گزر رہے ہیں اور انھیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’یہ حقیقت کہ ایک امریکی صدارتی امیدوار مسلمانوں پر پابندی کی بات کرتا ہے، مضحکہ خیز ہے۔ پچھلے 225 سال میں کسی امریکی صدر نے ایسا کچھ نہیں کہا جو اب سننے میں آرہا ہے۔ اگر آپ تاریخ دیکھیں تو مراقش وہ پہلا ملک تھا جس نے امریکہ کو تسلیم کیا تھا۔ امریکہ کے پاکستان سمیت، 52 مسلمان ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ تو میرا مسلمانوں سے جو یہاں امریکہ میں ہیں اور پوری دنیا میں یہ کہنا ہے کہ وہ جہاں بھی ہیں اپنی کمیونٹی اور شہری خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔‘‘
ندیم کا کہنا ہے کہ امریکہ اور مسلمانوں کی ایک دوسرے سے نسبت ہے اور یہی مسلمانوں کو سمجھنا ہے۔