میانمار اور بنگلہ دیش آئندہ ہفتے ہزاروں کی تعداد میں روہنگیاؤں کی وطن واپسی کا آغاز کریں گے۔ یہ مسلمان آبادی میانمار کی ریاست، رخائین میں تشدد کی کارروائیوں کے نتیجے میں نقل مکانی پر مجبور ہوئی تھی۔
یہ بات میانمار کےحکام نے جمعرات کے روز بتائی ہے، جب کہ ایک برس قبل ہونے والی کوشش ناکام ہوئی تھی۔
اگست، 2017ء میں فوجی قیادت میں ہونے والی کارروائی کے نتیجے میں 730000 روہنگیا رخائین سے بھاگ کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش پہنچے تھے۔ اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ یہ عمل ’’نسل کشی کی نیت سے کیا گیا‘‘۔ متعدد مہاجرین واپس جانے سے انکار کر رہے ہیں، جنھیں تشدد کی کارروائیوں کا خوف لاحق ہے۔
میانمار نے بنگلہ دیش کی جانب سے بھیجے گئے 22000 ناموں کی فہرست میں سے کل 3540 مہاجرین کو میانمار واپس آنے کی اجازت دی ہے۔ یہ بات دونوں ملکوں کے اہلکاروں نے رائٹرز کو بتائی ہے۔
مہاجرین کا پہلا گروپ اگلے ہفتے میانمار واپس ہوگا، اگر دونوں ملک اس عمل پر رضامند رہتے ہیں۔
میانمار کی خارجہ امور کی وزارت کے ترجمان، منٹ تھو نے ٹیلی فون پر رائٹرز کو بتایا کہ ’’ہم اس بات پر متفق ہیں کہ 22 اگست تک 3540 افراد کی وطن واپسی پر عمل پیرا ہوں‘‘۔
اس سے قبل کی جانے والی کوششیں مہاجرین کی جانب سے رخائین واپس جانے کی مخالفت کی وجہ سے ناکام ہوئی تھیں۔ نومبر میں کی جانے والی کوشش کے بعد کیمپوں میں خوف اور شک و شبہات کی صورت حال پیدا ہوئی اور مہاجرین نے احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں یہ کوششیں ناکام ہوئیں۔
بنگلہ دیش کے ایک اعلیٰ اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ نئی کاوش ’’محدود سطح‘‘ کی وطن واپسی پر مشتمل ہوگی، اور یہ کہ کسی کو زبردستی واپس نہیں بھیجا جائے گا۔
ایک اہلکار نے بتایا کہ ’’بنگلہ دیش اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتا کہ وطن واپسی کا عمل محفوظ، رضاکارانہ، عزت کے ساتھ اور قابل عمل طریقے سے طے ہو‘‘۔ اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا، چونکہ انھیں ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
روہنگیا کے سرگرم کارکن، محمد الیاس ’ارکان روہنگیا سوسائٹی‘ کی جانب سے امن اور انسانی حقوق سے متعلق کام میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وطن واپسی کے عمل کے بارے میں مہاجرین سے مشورہ نہیں کیا گیا۔
ایک پیغام میں انھوں نے کہا کہ میانمار کو چاہیے کہ وہ وطن واپس آنے والوں کے کلیدی مطالبات تسلیم کرے۔