دنیا کے کئی ممالک کے سائنس دان کرونا وائرس کا پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ویکسین تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ جب کہ محققین اس راز سے پردہ اٹھانے کی کوششںیں بھی کر رہے ہیں کہ کرونا وائرس بالآخر کہاں سے آیا؟ جو بلا شبہ یہ اب بھی سب سے بڑا راز ہے۔
عالمی ادارۂ صحت نے وائرس سے متعلق آگاہی کے لیے 10 سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم تشکیل دی ہے۔ یہ ٹیم اس بارے میں تحقیق کرے گی کہ کرونا وائرس کا پہلا مریض کس طرح وبا سے متاثر ہوا۔ ٹیم اس حوالے سے ان جانوروں پر بھی تحقیق کرے گی جن کے متعلق یہ شبہ ہے کہ کرونا وائرس ان کی وجہ سے پھیلا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ٹیڈروس نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ وائرس کی حقیقت جاننا ضروری ہے۔ اس سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔
کرونا وائرس کا پہلا کیس چین کے وسطی شہر ووہان میں ایک برس قبل سامنے آیا تھا جس کے بعد یہ وبا دنیا دوسرے ممالک تک پھیلنا شروع ہوئی اور اب تقریباََ ہر خطہ اس سے متاثر ہے۔
عالمی ادارۂ صحت نے نومبر میں جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پہلا کیس دسمبر 2019 کے شروع میں رپورٹ ہوا تھا۔ لیکن جہاں تک وبا کے پہلی مرتبہ پھیلنے کا سوال ہے، یہ ضروری نہیں کہ وہیں سے اس مرض کا آغاز ہوا ہو۔
حالیہ مہینوں کے دوران مختلف ممالک کے محققین نے گندے پانی یا خون کے نمونوں کے تجزیے کی بنیاد پر ان خیالات کا بھی اظہار کیا ہے کہ ہو سکتا ہے دسمبر 2019 سے قبل کرونا وائرس کے ابتدائی کیسز کی نشان دہی نہ ہوئی ہو۔
پیرس میں قائم 'انسٹی ٹیوٹ پاسٹخ'کے شعبہ وائرولوجی سے منسلک ایٹین سائمن لوریری کا کہنا ہے کہ ان دعوؤں کی حقیقت جاننے کے لیے واضح ثبوت موجود نہیں ہیں۔ محققین وائرس کے فیملی ٹری کو تشکیل دینے کے لیے جینیاتی تجزیوں پر انحصار کرتے ہیں۔
دوسری جانب عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ تحقیق سے وائرس کے پھیلاؤ یا اس کی منتقلی کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔ خاص طور سے اس بات کا پتا لگانے میں آسانی ہو سکے گی کہ وائرس وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح پروان چڑھا اور یہ کس طریقے سے ایک ہی جگہ اور ایک ہی وقت میں ایک کے بعد ایک شخص کو اپنا شکار بناتا چلا گیا۔
سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ بیماری جانوروں سے وجود میں آئی۔
ایٹین سائمن لوریری کا کہنا تھا کہ یہ اہم سوال یہ ہے کہ یہ وائرس بالآخر کس وجہ سے یا کس ذریعے سے انسانوں میں پھیلا۔
ان کے بقول اس حوالے سے چمگادڑوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ کرونا وائرس ان سے پھیلا۔ لیکن انسانوں میں وبا پھیلنے میں کسی اور جانور کی بھی نشان دہی کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔
عالمی ادارۂ صحت کے محققین کو چین کے شہر ووہان کی مچھلی اور گوشت مارکیٹ کی جانچ پڑتال کرنی ہو گی۔ تاکہ اس بات کی وضاحت ہو سکے کہ کرونا وائرس کے ابتدائی کیسز اسی مارکیٹ سے پھیلے یا نہیں۔
اس ٹیم کو اب وبا سے متعلق کافی معلومات دستیاب ہوں گی جو وبا کی ابتدا میں نہیں تھی۔
ایک اور ممکنہ افواہ بھی کئی ماہ سے گردش کر رہی ہے کہ 'ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی' کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں مبینہ طور پر ملوث ہے۔ یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ بائیو سیفٹی لیب سے وائرس پھیلا۔ چین ان الزامات اور افواہوں کو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔
تاہم ایٹین سائمن لوریری کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس خیال کو مکمل طور پر رد کرنا ممکن نہیں ہے کہ یہ وائرس حادثاتی طور پر پھیلا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس بات کے کوئی ثبوت نہیں کہ اسے انسانوں نے تیار کیا ہو۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق وبائی مرض کا آغاز کیسے ہوا؟ اسے سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ انسانوں کو اس مرض سے محفوظ رکھا جا سکے۔
عالمی ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ یہ سوال کہ وبا جانوروں سے انسانوں میں کس طرح پھیلی؟ یہ ایک ایسی پہیلی ہے جسے حل کرنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔
تحقیقات شروع کرنے کی غرض سے عالمی ادارۂ صحت نے ایک مختصر ٹیم جولائی میں بیجنگ روانہ کی تھی۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ عالمی ادارے کی متعدد اراکین پر مشتمل بڑی ٹیم چین کا سفر کب کرے گی۔