پاکستان میں حزب مخالف کے بھرپور احتجاج اور حکومت مخالف سیاسی حکمتِ عملی کے باوجود، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے قومی اسمبلی سے بجٹ منظور کروا لیا ہے۔
وزیر مملکت برائے ریوینیو حماد اظہر نے گیارہ جون کو بجٹ پیش کیا تھا جس کے بعد بجٹ پر بحث شروع ہوئی۔
اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں جمعے کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف کے اراکین کی بڑی تعداد موجود تھی جب کہ اپوزیشن بینچز پر بھی خاصی گہما گہمی تھی۔
جمعے کو ’فنانس بل‘ کی منظوری سے قبل حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم پر ایوان سے رائے لی گئی۔
ایوان میں حزب مخالف کی جماعتوں کی جانب سے ترامیم پیش کرنے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام ف کے اراکین خاصے سرگرم تھے۔ لیکن اسپیکر اسد قیصر وقت کی قلت کے سبب قدرے عجلت میں تھے۔
اسپیکر اسد قیصر فنانس بل کی مجوزہ ترامیم ایوان میں پوری پڑھنے کے بجائے یہ کہہ کر آگے بڑھتے گئے کہ: ’پڑھی ہوئی تصور کی جائے‘۔
اس دوران، حزب مخالف نے چینی پر عائد ٹیکس کم کرنے سے لے کر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح کم کرنے تک مختلف ترامیم متعارف کروائیں۔ لیکن حزب مخالف کی تقریباً تمام ترامیم مسترد ہوئیں اور فنانس بل کا حصہ نہیں بن سکیں جب کہ وزیر ریوینیو حماد اظہر کی جانب سے پیش کی گئی تمام ترامیم منظور کر لی گئیں۔
ایوان میں حکومتی اراکین موجود تو تھے، لیکن ان کی اکثریت بجٹ کے طویل سیشنز کے آخری دن آپس میں گفت و شنید میں مصروف تھے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایوان میں موجود تھے۔ لیکن وہ مستقل اپنے موبائل فون پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک اور اعظم سواتی، وزیر پیٹرولیم غلام سرور اور وزیر داخلہ اعجاز شاہ بھی آپس میں گفتگو میں مصروف تھے۔
بعض اراکین ایک دوسرے کو چھالیہ بانٹ رہے تھے تو بعض موبائل فون پر تصاویر یا ویڈیوز ایک دوسرے کو دکھا رہے تھے۔
اسی لیے، وزیر مملکت برائے ریوینیو حماد اظہر کو بار بار اپنی پچھلی نشتسوں پر موجود اراکین کو ’الرٹ‘ کرنا پڑتا تھا۔
حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی ترمیم پر اسپیکر اسد قیصر ایوان کی رائے لینے کے لیے کہتے رہے کہ ’’جو اس کے حق میں ہیں کہیں ہاں اور جو اس کے مخالف ہیں کہیں نہیں‘‘۔ تو، وزیر مملکت حماد اظہر کو ہاتھ بلند کر کے اپنے پیچھے موجود اراکین کو اشارہ دینا پڑتا تھا کہ ’’جواب دیں‘‘۔
اور پھر آواز آتی ’ہاں‘۔ جس کے بعد، ترمیم فنانس بل کا حصہ بن جاتی۔
گو کہ بجٹ اجلاس 11 جون سے جاری تھا اور آج یعنی 28 جون کو بجٹ منظور ہونا تھا۔ ایسے میں ترامیم زیادہ تھیں اور وقت کم۔
اسپیکر اسد قیصر کئی مرتبہ حکومتی ترامیم بھی ایوان میں پوری پڑھنے کے بجائے یہ کہہ کر آگے بڑھتے گئے کہ ’پڑھی ہوئی تصور کی جائے‘ اور ایک مرتبہ تو انھوں نے کہا کہ ’’کافی لمبی ہیں اس لیے پڑھی ہوئی تصور کی جائیں۔‘‘
جمعے کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے عبدالقادر پٹیل، شازیہ مری، مہرین بھٹو، نفیسہ شاہ، نوید قمر، شاہدہ اختر، شاہد خاقان عباسی، مولانا عبدل الاکبر چترالی، شائستہ پرویز کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم پر ایوان کی رائے لی گئی۔
یہ ترامیم ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل اور مراعات ختم کرنے کے بارے میں تھیں لیکن کوئی بھی ترمیم منظور نہ ہو سکی۔
اسپیکر نے ترمیم پیش کرنے والے رکن کا نام پکار اور ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے ابھی اپنی مجوزہ ترمیم کے حق میں دلائل ہی دیے تھے کہ اسپیکر صاحب نے ایک مرتبہ کہا کہ ’’پڑھی ہوئی تصور کی جائے۔ شکریہ۔‘‘
اس کے بعد نفیسہ شاہ نے کہا کہ ’’ایسے ہمیں کٹ نہ کریں بات تو پوری سنیں۔‘‘ جس کے جواب میں اسپیکر صاحب نے کہا: ’’کیا کٹ نہ کریں۔‘‘
نفیسہ شاہ نے جواب دیا کہ ’’ہمیں کٹ نہیں کریں۔ ہماری آواز بند کرنا ہمیں کٹ کرنے جیسا ہے۔‘‘
جمعیت علمائے اسلام کے رکن مولان عبدالاکبر چترالی نے اسپیکر کی اس عجلت کے جواب میں کہا کہ ’’اپوزیشن اراکین نے پورے مہینے محنت کی ہے۔ ترمیم منظور نہیں کرنی۔ لیکن کم سے کم سن تو لیں۔ آپ بار بار یہی کہتے ہیں کہ پڑھا ہوا تصور کیا جائے۔‘‘
یہی سلسلہ جاری تھا کہ حکومت نے ایوان میں فنانس بل کے ذریعے مالیاتی نظام سے متعلق ایک اور قانون پیش کیا اور اسپیکر صاحب نے کہا کہ ’’پڑھا ہوا تصور کیا جائے‘‘، جس پر اپوزیشن نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر شور شرابا شروع کر دیا کہ یہ ایک نیا قانون ہے اسے فنانس بل کے ذریعے کیسے منظور کروایا جا سکتا ہے؟
جس پر اسپیکر نے کہا کہ وہ رولنگ دیں چکے ہیں اور یوں اپوزیشن کے احتجاج اور وزیر مملکت حماد اظہر کے ہاتھ کے اشارے کے دوران ’آئیز ہیو اٹ، آئیز ہیو اٹ‘ اور قانون منظور ہو گیا۔
یوں قومی اسمبلی نے مالی سال 2019 -2020 کے لیے بجٹ کی منظوری دے دی۔