چار سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ مریخ پر بھیجے جانے کی مریخ روبوٹک لیبارٹری زمینی مرکز سے بھیجے جانے والے پیغامات کا جواب نہیں دے رہی۔ کیلی فورنیا میں واقع زمینی مرکز سے ’ان سائٹ لینڈر‘ کا آخری رابطہ 15 دسمبر کو ہوا تھا، جس کے بعد مسلسل کوششوں کے باوجود مریخ سے جواب نہیں آ رہا۔ناسا نے اپنی روبوٹک مشین کا آخری پیغام جاری کر دیا ہے۔
ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ روبوٹک لیبارٹری کی بیٹریاں مردہ ہو گئی ہیں اور توانائی نہ ہونے کی وجہ سے مواصلاتی آلات نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔
ان چار برسوں میں روبوٹک مشین نے مریخ کے بارے میں بہت قیمتی معلومات زمین پر بھیجی ہیں جو مستقبل میں مریخ پر اترنے والے خلابازوں کی رہنمائی کریں گی۔ خلائی سائنس دانوں کو توقع ہے کہ خلا کی مزید گہرائی تک جانے کے لیے شروع کی جانے والی تازہ کوششیں انہیں اس قابل بنا دیں گی کہ وہ دس برسوں تک انسانی خلائی مشن سرخ سیارے مریخ پر اتار سکیں۔
مریخ کے بارے میں سائنسی معلومات اکھٹی کرنے کے لیے ناسا نے ایک راکٹ کے ذریعے 26 نومبر 2018 میں ایک روبوٹک مشین سرخ سیارے کی سطح پر اتاری تھی، جسے ’’ان سائٹ مارس لینڈر‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس گاڑی پر زلزلہ پیما سمیت کئی آلات نصب تھے۔گاڑی میں کھدائی کرنے والی اور مٹی کے نمونے اکھٹے کرنے والی ایک مشین بھی لگائی گئی تھی جو 16 فٹ کی گہرائی تک کھدائی کر کے مٹی کا نمونہ لے سکتی تھی۔ تاہم ان چار برسوں کے دوران وہ دو فٹ سے زیادہ گہرائی تک کھدائی نہ کر سکی۔ جس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔
لینڈر کی اصطلاح ایک ایسی سائنسی مشین کے لیے استعمال کی جاتی ہے جسے کسی خاص سطح پر اتارا جاتا ہے اور وہ وہاں موجود رہ کر کام کرتی ہے جب کہ ’روور‘ ایک ایسی روبوٹک گاڑی ہوتی ہے جو ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے اور سائنسی امور سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ان سائٹ لینڈر کو ابتدائی طور پر دو سال کے لیے کام کرنا تھا اور اس کا مشن دسمبر 2020 میں ختم ہونا تھا۔لیکن بعدازاں اس میں مزید دو سال کی توسیع کر دی گئی اور ناسا نے بتایا کہ اب وہ دسمبر 2022 تک اپنا کام جاری رکھے گی۔
ان سائٹ سے آخری زمینی رابطہ 15 دسمبر کو ہوا تھا جس میں اس نے کچھ اہم معلومات زمینی کنٹرول کو بھیجیں تھیں۔ اس کے بعد سے ان سائٹ خاموش ہے اور زمینی کنٹرول کے ماہرین کوششوں کے باوجود کوئی جواب حاصل نہیں کر پا رہے۔
SEE ALSO: مریخ کی سطح کیسی دکھائی دیتی ہے؟ ناسا نے ہائی ریزولوشن ویڈیو جاری کر دیناسا کے ایک بیان میں کہا گیا ہےکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان سائٹ کے آپریشنز اپنے اختتام کو پہنچ گئے ہیں۔ اور جمعرات کے بعد سے اس سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کی بیٹریوں کے ساتھ فوری طور پر کیا ہوا۔
ناسا نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی ٹیم ان سائٹ سے رابطہ بحال کرنے کی کوششیں جاری رکھے گی۔
مریخ پر اپنے قیام کے ان چار برسوں میں ان سائٹ مشین اہم معلومات فراہم کر چکی ہے۔ اس پر نصب زلزلہ پیما نے زلزوں کے 1300 سے زیادہ جھٹکوں کو ریکارڈ کیا جن میں سے زیادہ تر زلزلے مریخ کی سطح پر بڑے سائز کے شہابیے گرنے سے آئے۔ پچھلے سال ایک شہاب ثاقب گرنے سے آنے والے زلزلے کی ریکارڈنگ سے سائنس دانوں کو پانی کے چھلکنے جیسی آواز سنائی دی جو مریخ پر پانی کی موجودگی کی ایک اور علامت تھی۔ پانی کی موجود گی مریخ پر انسانی آبادکاری کی خواہش کو حقیقت کی جانب لے جا سکتی ہے۔
مریخ سے پیغام رسانی کا سلسلہ رکنے کے بعد ناسا کے سائنس دانوں نے ’ان سائٹ‘ کے آخری پیغام کو ٹویٹ کیا ہے۔تاہم یہ پیغام ناسا کے سائنس دانوں نے ہی ان سائٹ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ میری طاقت حقیقتاً گھٹ گئی ہے ، چنانچہ میں اب آپ کو جو تصویر بھیج رہا ہوں، ممکن ہے کہ وہ میری جانب سے آخری تصویر ہو ۔ میرے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں میرا وقت بہت سکون سے گزرا ہے اور میں نے مفید کام کیے ہیں۔اگر اندر کی توانائی نے میرا ساتھ دیا تو میں اپنے مشن کی ٹیم سے رابطہ کروں گا۔ رخصت چاہتا ہوں۔ میرا ساتھ دینے کا بہت شکریہ۔
’ان سائٹ لینڈر‘ زمین سے مریخ کی سطح پر اتاری جانے والی ناسا کی واحد سائنسی مشین نہیں ہے بلکہ اب بھی دو اور روبوٹک لیبارٹریاں وہاں کام کررہی ہیں جن میں سے ایک کیوراسٹی ہے جسے 2012 میں وہاں اتارا گیا تھا جب کہ دوسری مشین چھ پہیوں والی ربوٹک گاڑی ’’پرسی‘‘ ہے جس نے 30 جولائی 2020 کو مریخ کی سطح کو چھوا تھا۔ کار کے سائز کی اس گاڑی میں کیمرے، سینسر اور دیگر کئی قسم کے آلات نصب ہیں اور وہ چل پھر کر ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہے۔
اور ہاں ان کے علاوہ مریخ پر ایک چھوٹا سا ہیلی کاپٹر بھی موجود ہے۔جس کا نام’ انجنیوٹی‘ ہے۔ اسے’ پرسی‘ کے ساتھ ہی مریخ پر بھیجا گیا تھا۔ وہ اب تک مریخ کی فضا میں 37 پروازیں مکمل کر چکا ہے۔ یاد رہے کہ مریخ کی فضا بہت لطیف ہے اور وہاں اڑانے کے لیے بہت ہی خاص قسم کے ہلکے ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔
سائنس دان کئی برسوں سے اس کوشش میں ہیں کہ مریخ پر زندگی کی کسی بھی قسم کی موجودگی کا کھوج لگا سکیں چاہے وہ جراثیمی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ پانی اور ہوا کی موجودگی زندگی کے امکان کو بڑھا دیتی ہے۔
مریخ پر بھیجے جانے والے آلات بجلی سے کام کرتے ہیں جنہیں توانائی ری چارج ایبل بیٹریوں سے فراہم کی جاتی ہے۔ بیٹریوں کو چارج کرنے کے لیے سولر پینل لگائے جاتے ہیں۔ لیکن مریخ کے معاملے میں ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہاں ہر وقت گردوغبار کے جھکڑ چلتے رہتے ہیں جس سے سولر پینلز پر مٹی کی تہہ جم کر انہیں ناکارہ کر دیتی ہے۔ ان سائٹ کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ گرد کی موٹی تہہ کی وجہ سے اس کے سولر پینلز نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔