بالی ووڈ فلم ایکٹر نصیر الدین شاہ ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں۔ ان کی اہلیہ رتنا اور بیٹی حبا بھی ان کے ساتھ ہیں۔ پچھلے سال وہ ایک اسٹیج ڈرامہ ’عصمت آپا کے نام‘ پیش کرنے پاکستان آئے تھے، جبکہ اس بار ان کی آمد کا مقصد اپنی کتاب ’اور پھر ایک دن‘ کی رونمائی تھا۔
نصیر الدین شاہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی دعوت پر کراچی پہنچے ہیں، جبکہ دو روز قبل انہوں نے فیض فاوٴنڈیشن ٹرسٹ اور ’فیض گھر‘ کی میزبانی میں لاہور لٹریری فیسٹیول میں شرکت کی تھی۔ منگل کو انہوں نے آرٹس کونسل کراچی کا بھی دورہ کیا۔
تقریب رونمائی میں شرکاٴ سے بات چیت میں نصیر الدین شاہ نے بھارتی فلم انڈسٹری سے متعلق اپنے خیالات کا بھی اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کرئیر کے ابتدائی دنوں میں انہیں گودام جیسی ایک معمولی جگہ میں بھی رہنا پڑا اور ہر طرح کی سختیاں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ 16سال کی کم عمری میں ممبئی آبسے تھے۔ فلم ’امن‘ اور ’سپنوں کا سوداگر‘ ان کے شروع دور کی فلمیں تھیں۔
ٹی وی ڈرامہ ’مرزا غالب‘ میں اپنے سین سے متعلق انہوں نے کہا کہ سیریل کے مصنف گلزار نے سنجیوکمار کو ذہن میں رکھ کر یہ کردار لکھا تھا، لیکن قسمت سے یہ کردار سنجیوکمار کی بجائے انہیں مل گیا۔‘
تقریب کے دوران، نصیر نے اپنی کتاب کے کچھ اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے جن سے سننے والے بہت محظوظ ہوئے۔ اپنے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں اچھی فلمیں ملیں اس لئے وہ اداکار بن گئے۔
اس سے قبل، انہوں نے ایک انٹرویو میں ان خیالات کا بھی اظہار کیا کہ’اردو تھیٹر کی تباہی کا بڑا سبب سینما ہے، بھارتی فلمیں دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہیں لیکن صرف اپنی چٹخارے دار کہانیوں کی وجہ سے ورنہ ان میں ماضی جیسی کوئی بات نہیں ۔ان میں موضوعات کا فقدان ہے۔ فلم کے مقابلے میں ان کی ترجیح ہمیشہ تھیٹر رہے گی کیونکہ فلم اور تھیٹر کا کوئی موازنہ نہیں۔‘
’روزنامہ ایکسپریس‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’بھارت میں ہر گلی میں ایکٹنگ اسکول قائم ہے۔ لیکن، اس کے باوجود وہاں بہترین اداکاروں کا فقدان ہے‘ سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ اداکاری سیکھانے والوں کو اصل میں اداکاری کرنے کا موقع نہیں ملتا۔‘