امریکہ میں ایک سفید فام پولیس اہلکار کی حراست میں سیاہ فام شہری کی گرفتاری کے بعد ہتھکڑی لگاتے ہوئے موت کے خلاف پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ امن عامہ کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے 12 ریاستوں میں نیشنل گارڈز کو طلب کر لیا گیا ہے۔
گزشتہ چار راتوں کے دوران ابتدا میں احتجاج پُر امن تھا تاہم بعد ازاں اس میں لوٹ مار، آگ لگانے سمیت دیگر پُرتشدد عوامل شامل ہوتے چلے گئے۔
پُرتشدد واقعات کا آغاز منیاپولس سے ہی ہوا جہاں پر پولیس اہلکار کی حراست سیاہ فام شہری کی ہلاکت ہوئی تھی۔ جہاں تین دن قبل ہی نیشنل گارڈز کو طلب کر لیا گیا تھا۔
پیر کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار نے ایک سیاہ فام شخص کی گردن پر اپنے گھٹنے سے دباؤ ڈال رکھا تھا۔ جو بعد میں دم توڑ گیا تھا۔
بعد ازاں مذکورہ شخص کی شناخت 46 سالہ جارج فلوئیڈ کے نام سے ہوئی تھی جو مقامی ہوٹل میں سیکیورٹی گارڈ تھا۔ پولیس کا الزام تھا کہ مذکورہ شخص کو ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے قریب سے جعلی بل منظور کرانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن اس نے گرفتاری کے دوران مزاحمت کی کوشش کی۔
واقعے کے بعد ریاست منی سوٹا کے مختلف شہروں میں پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔
امریکہ کے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ میں اس سے قبل بھی 2014 میں نیو یارک میں ایک سیاہ فام شخص پولیس کی زیرِ حراست ہلاک ہو گیا تھا۔ ایرک گارنر نامی سیاہ فام شخص کو کھلے سگریٹس کی غیر قانونی فروخت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس اہلکار نے ایرک گارنر کی گردن پر گھٹنا رکھا تھا جس پر اُس نے 11 دفعہ کہا تھا کہ 'میں سانس نہیں لے سکتا' جس کے بعد یہ جملہ پولیس تشدد کے خلاف ایک نعرہ بن گیا تھا۔ مذکورہ واقعے کے پانچ سال بعد گزشتہ سال نیو یارک پولیس کے ایک اہلکار کو ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔
منیاپولس میں پیش آنے والے واقعے کے بعد سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے معاملے کو اقدام قتل قرار دے کر مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔
مقدمہ درج ہونے کے باوجود پُر تشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں سرکاری املاک اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ مظاہرین 'میں سانس نہیں لے سکتا' کتبے لیے سڑکوں پر مارچ کر رہے ہیں۔
امریکہ کی 11 ریاستوں جارجیا، کینٹکی۔ اوہایو، ویسکونسن، کولاراڈو، یوٹا، واشنگٹن، کیلیفورنیا، ٹینیسی، میزوری اورٹیکساس کے گورنرز نے بھی نیشنل گارڈز کو امن عامہ کے لیے طلب کر لیا ہے۔ ان ریاستوں میں کئی مقامات پر مظاہرے پُر تشدد احتجاج میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
کیلیفورنیا کے گورنر نے لاس اینجلس میں ہنگامی حالات نافذ کر دیے ہیں۔ ہفتے کی شب احتجاج میں لاس اینجلس میں مظاہرین نے کئی مقامات پر آگ لگا دی تھی۔
ریاست انڈیانا کے شہر انڈیاناپولس میں فائرنگ سے ایک شخص ہلاک جب کہ دو زخمی ہوئے تھے۔ پولیس کے سربراہ نے متاثرہ علاقے سے غیر رہائشی افراد کو نکل جانے کا کہا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ علاقہ اس وقت محفوظ نہیں ہے۔
امریکہ خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی رپورٹ کے مطابق امریکہ بھر میں 1400 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
خیال رہے کہ گرفتار افراد کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے کیوں کہ کئی شہروں میں احتجاج کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
امریکہ کے کئی شہروں کے میئرز نے رات کا کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے۔ جن شہروں میں کرفیو کا نفاذ کیا گیا ہے ان میں لاس اینجلس، سیٹل، ڈینور، فلاڈلفیا، پورٹ لینڈ، اوریگن، کولمبیا اور کیرلینا سمیت دیگر شامل ہیں۔
نیو یارک کی گلیوں میں بھی مظاہرین بڑی تعداد میں احتجاج کے لیے باہر نکلے۔ مسلسل تیسری رات احتجاج کے لیے شہریوں کی جانب سے باہر نکلنے کے بعد شہر کت میئر بل دی بلاسیو نے بروکلین میں ایک نیوز کانفرنس کی۔ اس نیوز کانفرنس کا مقام اس جگہ سے زیادہ دور نہیں تھا جہاں مظاہرین احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی شہر کی شاہراہوں پر مظاہرین موجود ہیں، یہ مظاہرین چند سو ہیں وہ ان سے اپیل کرتے ہیں کہ گھروں کو چلے جائیں۔
احتجاج کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مظاہرین کے مطالبے کو واضح طور پر سن لیا ہے۔ ہم ان کے پر امن احتجاج کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اب وقت ہو چکا ہے کہ لوگوں گھروں کو چلے جائیں۔
انہوں نے پُر تشدد احتجاج کرنے والوں کو متنبہ کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی پر بھی زور دیا۔
نیو یارک شہر میں نیشنل گارڈز کو تعینات نہیں کیا گیا۔ شہر کے میئر کے مطابق پولیس اس صورت حال کو قابو کرنے کا درست ادارہ ہے۔ پولیس نیویارک شہر سے واقف ہے۔
ہفتے کی شب وائٹ ہاؤس کے قریب ہونے والا مظاہرہ بھی پر تشدد احتجاج میں تبدیل ہو گیا تھا۔
بعض مظاہرین نے خفیہ اداروں کے اہلکاروں اور پولیس پر بوتلیں اور دیگر اشیا بھی پھینکیں۔ پولیس نے مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔
بعد ازاں مظاہرین نے وائٹ ہاؤس کے قریب کچھ اسٹورز میں آگ لگنے کے بعد لوٹ مار بھی کی۔
خیال رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کی دوپہر منیاپولس واقعے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ منیاپولس کی گلیوں میں جارج فلوئیڈ کی موت ایک سانحہ تھا۔ ایسا دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے ملک بھر میں امریکہ خوف، غصے اور غم کا شکار ہوئے۔