امریکی صدر براک اوباما نے خوراک کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے عالمی شراکت داری کا ایک نیا تصور پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ بھوک اور غذائی قلت کے خلاف جنگ کی قیادت کرے۔
صدر اوباما نے جمعے کے روز اجی ایٹ کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر حکومتوں، عطیات دینے والے ممالک اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان شراکت داری کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا۔
کیمپ ڈیوڈ میں منعقد ہونے والی دوروزہ جی ایٹ کانفرنس میں دنیا کے آٹھ بڑے صنعتی ممالک یعنی امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان، کینیڈا اور روس شامل ہیں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ خوراک کی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اگلے دس سال کے دوران کاشت کاروں کی آمدنیاں بڑھانے اور پانچ کروڑ افراد کو غربت کی چنگل سے نکالنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
امریکی صدر نے اپنی تقریر کے دوران ایتھوپیا، گھانااور تنزانیہ کے راہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غذائی قلت سے نمٹنے کی کوششوں کا آغاز ان کے تین ممالک سے کیا جائے گا۔
افریقی یونین کے چیئرمین اور بنین کے صدر تھامس بونی یایی کو بھی جی ایٹ کانفرنس میں مدعوکیا گیا ہے اور وہ جی ایٹ کے اس خصوصی اجلاس میں شرکت کریں گے جس کے بارے میں مسٹر اوباما نے کہاہے کہ ہفتے کے روز کانفرنس خوراک سے منسلک چیلجنز سے مقابلے پر غور کرے گی۔
صدر نے کہا کہ انہوں نے 2009ء کی جی ایٹ کانفرنس میں بھی خوراک کی قلت سے نمنٹے کا منصوبہ پیش کیاتھا اور غریب ممالک کے زرعی شعبے کو ترقی دینے کے لیے 22 ارب ڈالر کے وعدے کیے گئے تھے، لیکن ان کا کہناتھا کہ ابھی اس سلسلے میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔