نیٹو کے 28 لیڈروں نے افغانستان میں جنگ کو بتدریج ختم کرنے کے متفقہ منصوبے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اس منصوبے کے تحت اگلے سال کے وسط تک افغان سیکورٹی فورسز جنگی کارروائیوں کی ذمہ داریاں سنبھال لیں گی اور نیٹو کی تمام لڑاکا فورسز ملک سے دسمبر 2014ء تک رخصت ہو جائیں گی۔
اگرچہ سربراہ کانفرنس کا اصل موضوع افغانستان تھا، لیکن نیٹو کے لیڈروں نے بلیسٹک میزائل ڈیفینس سسٹم کے لیے اپنی حمایت کا بھی اعادہ کیا۔
2009ء میں صدر براک اوباما نے بُش انتظامیہ کی اس تجویز پر غور ختم کر دیا تھا کہ ایک میزائل شکن نظام کے لیے پولینڈ میں 10 میزائل اور چیک ریپبلک میں ریڈار کا ایک نظام نصب کیا جائے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ نیا منصوبہ زیادہ لچکدار ہے۔ اس میں حملہ آور میزائلوں کو تباہ کرنے کے لیے سمندر میں بحری جہازوں پر میزائل شکن نظام نصب کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی جدید میزائل شکن نظام زمین پر نصب ہوں گے جن میں سے کچھ سابق وارسا پیکٹ کے ملکوں میں قائم کیے جائیں گے۔
نیٹو سربراہ کانفرنس کے خاتمے پر صدر اوباما نے ان اتحادی ملکوں کا شکریہ ادا کیا جو اس دفاعی نظام میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔
’’ترکی میں ہمارا دفاعی ریڈار نیٹو کے کنٹرول میں دے دیا جائے گا۔ اسپین، رومانیہ اور پولینڈ اہم فوجی ساز و سامان کو اپنے ملکوں میں نصب کرنے کو تیار ہیں۔ نیدرلینڈز ان ریڈارز کو زیادہ جدید بنائے گا جو وہاں نصب ہیں اور ہم اپنے دوسرے اتحادیوں کی مدد کے منتظر ہیں۔‘‘
روس نے یورپ میں امریکہ کے بلیسٹک میزائل ڈیفینس سسٹم کی مسلسل مخالفت کی ہے۔ ماسکو کا خیال ہے کہ اس قسم کے سسٹم کا مقصد ایران جیسے ملکوں کی طرف سے میزائلوں کے حملوں سے دفاع کرنا نہیں ہے۔ روسی عہدے داروں کے خیال میں یہ نظام روس کے خلاف بنایا جا رہا ہے۔ امریکہ اور صدر اوباما نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
’’چونکہ اس سسٹم کا ہدف روس کا دفاعی نظام نہیں ہے اور نہ اس سے روس کی فوجی طاقت کو کوئی نقصان پہنچتا ہے اس لیے میرا خیال یہی ہے کہ میزائل ڈیفینس ایسا شعبہ ہے جس میں روس کے ساتھ تعاون ممکن ہے۔‘‘
روس کے نو منتخب صدر ولادیمرپوٹن نے نیٹو کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے دعوت نامے کو قبول نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ نئی حکومت کی تشکیل کے لیے ان کا ماسکو میں موجود ہونا ضروری ہے۔ انھوں نے اپنے بجائے وزیرِاعظم دیمتری میدویدف کو بھیج دیا۔
پرنسٹن یونیورسٹی اور نیویارک یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر سٹیفن کوہن کے خیال میں مسٹر پوٹن کے اس فیصلے کی اصل وجہ کچھ اور ہے۔
’’اس نازک لمحے میں وہ کوئی ایسا علامتی اشارہ دینا نہیں چاہتے کہ وہ میزائل ڈیفینس کے معاملے میں جس کے بارے میں امریکہ کا موقف بہت سخت ہے کچھ نرم پڑ رہے ہیں۔ میزائل ڈیفینس اب سرکاری طور پر نیٹو کا پروگرام ہے جس پر شکاگو میں نیٹو سربراہ کانفرنس میں بات چیت ہوئی ہے۔ ایسے وقت میں جب امریکہ اور نیٹو میزائل ڈیفینس کو مسلسل وسعت دینے کے بارے میں خود کو مبارکباد دے رہے ہیں، پوٹن کا اوباما کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت کرنا کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑے گا۔‘‘
نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں روس کے ماہر جان پارکر نے اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میزائل ڈیفینس کے منصوبوں پر نکتہ چینی کرنے سے روسی قیادت کا مفاد وابستہ ہے۔
’’اب سے لے کر 2020ء تک کے عرصے کے لیے پوٹن اور میدویدیف نے فوج کو مسلح کرنے کے لیے خاصا بڑا بجٹ رکھا ہے ۔ بہت سی لابیز فوجی بجٹ میں اپنے حصے کی طرف نظر لگائے ہوئی ہیں۔ لہٰذا یہ بات ان کے مفاد میں ہے کہ وہ اس خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں تا کہ انہیں ان ہتھیاروں کی تیاری کے لیے پیسہ مل جائے جس سے ان کے خیال میں اس خطرے سے نمٹا جا سکتا ہے۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ اس بات کی امید نظر نہیں آتی کہ ماسکو اور واشنگٹن میزائل ڈیفینس کے بارے میں اپنے اختلافات جلد ہی طے کر لیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کچھ پیش رفت ہوئی بھی تو اگلے سال کسی وقت، امریکہ کے صدارتی انتخابات کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔