نیٹو کے سربراہ نے شام میں روس کی فوجی کارروئیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ماسکو نے رواں ہفتے یہ کارروائیاں شروع کی تھیں اور بدھ کو ہی اس نے شامی باغیوں پر کروز میزائل سے بھی حملہ کیا تھا۔
نیٹو کے سربراہ جین سٹولٹنبرگ نے جمعرات کو برسلز میں نیٹو وزائے دفاع کے اجلاس سے قبل کہا کہ "نیٹو اپنے اتحادیوں بشمول ترکی کا کسی بھی خطرے کے خلاف دفاع کرنے کے قابل اور تیار ہے، اس نے جنوب بشمول ترکی میں اپنی فورسز تعینات کر کے اپنی استعداد اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔"
برسلز میں ہونے والے اجلاس میں توقع ہے کہ شام میں روس کی مداخلت کا معاملہ زیر بحث رہے گا۔
یہ معاملہ رواں ہفتے اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب روس نے فضائی کارروائی کے دوران ترکی کی حدود کی خلاف ورزی کی۔
برطانیہ کے وزیردفاع مائیکل فالن کا کہنا ہے کہ جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں کوشش کی جائے گی کہ اس بحران کی شدت کو کم کرنے کی راہ تلاش کی جائے اور ان کے بقول ماسکو "شام میں ایک سنگین صورتحال پیدا کر رہا ہے جو کہ مزید خطرناک ہو گی۔"
امریکہ کے وزیر دفاع ایشٹن کارٹر بھی اس اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں۔ بدھ کو روس کی فوجی کارروائیوں پر قدرے سخت موقف اپناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اس معاملے پر ماسکو سے معاونت نہیں کرے گا۔
"روس کی حکمت عملی غلط ہے۔۔۔ وہ (روس) ان اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے جو داعش کے نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہی بنیادی غلطی ہے۔"
روس کا اصرار ہے کہ وہ بنیادی طور پر مذہبی انتہا پسند گروپوں اور ان کے اتحادیوں پر ہی بمباری کر رہا ہے۔ لیکن امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کی بہت سی کارروائیوں میں ان باغیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جن کی واشنگٹن حمایت کرتا ہے۔
روس شام کے صدر بشار الاسد کا اہم اتحادی ہے۔ شام میں تقریباً پانچ سالوں سے اسد کی حکومت کے خلاف مختلف دھڑے مسلح کارروائیاں کر رہے ہیں اور وہ ان سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔