امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ نیٹو اتحاد کےتمام 28 ممالک یوکرین کے اقتدارِ اعلیٰ، آزادی، علاقائی یکجہتی اور دفاع کے حق کی حمایت کے سلسلے میں ’مکمل طور پر متحد‘ ہیں۔
صدر نے یہ بیان ویلز میں اختتام پذیر ہونے والے نیٹو کے سربراہ اجلاس سے خطاب میں کیا، جس میں اتحاد کے ارکان نے مشرقی یورپ میں لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک نئی ’ریپڈ ریسپانس فورس‘ کی منظوری دی۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ نیٹو یوکرینی صدر پیٹروشنکو کے عزم کی حمایت کی ہے، جو اپنے ملک میں ایک پُرامن حل کے تلاش کی جستجو کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے روس پر زور دیا کہ یوکرین کی علاقائی یکجہتی کو لاحق خلاف ورزیاں بند کی جائیں۔
اس سے قبل، جمعے کے دِن نیٹو سکریٹری جنرل آندرے فوغ راسموسن نے اعلان کیا کہ ارکان نے روس کی طرف سے مزید جارحانہ اقدامات کی ممکنہ پیش بندی کے طور پر مشرقی یورپ کو حربی آلات بھیجنے کی منظوری دی۔ اُنھوں نے کہا کہ بحرانوں سے نبردآزما ہونے کے لیے اتحاد کی فوجوں پر مشتمل ایک ’ریپڈ ری ایکشن فورس‘ تشکیل دینے کی بھی منظوری دی۔
مسٹر راسموسن نے اِس نئی فورس کو نیٹو کی موجودہ ’ریسپونس فورس‘ کی پیش رو (اسپیئرہیڈ) قرار دیا، جو برَی، فضائی، میری ٹائم اور خصوصی کارروائیوں کے سلسلے کا حصہ ہوگی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’سپیئرہیڈ‘ میں کئی ہزار بَری فوج شامل ہوگی، جسے بحری، فضائی اور اسپیشل فورسز کے دستوں کی مدد حاصل ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ اِس میں رُکن ممالک کی فوجیں شامل ہوں گی، جن کی تعیناتی باری باری ہوگی، اور چند ہی دِنوں کے نوٹس پر فوج تعینات کی جائے گی۔
اس فورس کے مشرقی یورپ کے متعدد نیٹو ممالک میں اڈے قائم ہوں گے۔
مسٹر راسموسن نے کہا کہ پولینڈ، رومانیا اور بالٹک ریاستوں نے آلات اور رسد کو اسٹور کرنے کی تنصیب کے ساتھ ساتھ چھوٹی سطح کی کمان، منصوبہ بندی اور رسل و رسائل کے وسائل سے متعلق عملے کو اپنے ملک میں جگہ دینے کی پیش کش کی ہے۔
مسٹر راسموسن نے کہا کہ یہ اقدام یوکرین میں غیرقانونی فوجی کارروائیوں کے جواب میں ہے، ساتھ ہی ساتھ، روس کے اُن بیانات کا بھی جواب ہے جن میں کہا گیا ہے کہ اُسے دیگر ملکوں کے معاملات میں مداخلت کا حق حاصل ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ روس کے یہ بیانات ’کافی تشویش‘ کا باعث بنے ہیں، جس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہی مشرقی یورپ میں ’اسپیئرہیڈ فورس‘ تشکیل دینے کا فیصلہ سامنے آیا۔
نیٹو رہنماؤں نے روس کے خلاف ممکنہ مزید پابندیاں لاگو کرنے کے بارے میں بھی گفتگو کی، جس سے قبل یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی حمایت میں اُس کی فوجی مداخلت کے بارے میں انکشافات سامنے آچکے ہیں۔