ویلز میں نیٹو کے رہنما جمعہ کو دوسرے روز بھی سربراہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں جس میں مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کرنے پر روس کے خلاف مزید تعزیرات عائد کرنے پر غور کیا جائے گا۔
توقع ہے کہ 28 رکنی اتحاد مشرقی یورپ میں سریع الحرکت عسکری سازوسامان متعین کرنے کی منظوری بھی دے گا تاکہ اس خطے میں ممکنہ روسی فوجی جارحیت کا دفاع کیا جاسکے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما اجلاس کے اختتام پر ایک بیان بھی دیں گے۔ انھوں نے جمعرات کو اتحادی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔
یوکرین کا بحران اس اجلاس کا موضوع بحث رہا لیکن نیٹو کے رہنماؤں نے عراق اور شام کے بڑے حصوں پر قابض اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں کے خطرے سے نمٹنے کی حکمت عملی پر بھی توجہ مرکوز رکھی۔
برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے جمعرات کو کہا تھا کہ نیٹو ممالک کے رہنما سنی انتہا پسند گروپ کو متحد اور جامع جواب دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔
صدر اوباما اور کیمرون نے جمعرات کو "دی ٹائمز آف لنڈن" میں لکھے گئے اپنے مضامین میں کہا تھا کہ وہ دو امریکی صحافیوں کا سر قلم کرنے والی اسلامک اسٹیٹ سے مرعوب نہیں ہوں گے۔
یہ گروہ یرغمال بنائے گئے ایک برطانوی شہری کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اقدام اس نے عراق میں اپنے ساتھیوں پر امریکی بمباری کے ردعمل میں کیا۔
بات چیت میں یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے علاوہ رہنماؤں نے اتحادی افواج کی افغانستان میں القاعدہ کے خلاف 13 سال سے جاری جنگ اور کابل میں سیاسی عدم استحکام پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
افغانستان میں جون میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے بعد سے وہاں نئے صدر کے معاملے پر تنازع جاری ہے جب کہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی تمام ووٹوں کی دوبارہ جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے۔
رواں سال کے اواخر تک افغانستان سے تمام نیٹو افواج اپنے اپنے وطن واپس چلی جائیں گی۔