پاکستانی قیادت کے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ تقریبا ساڑھے پانچ ماہ سے بند پاکستان کے راستے نیٹو رسد کھلنے کا معاملہ حتمی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور منگل کو قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں اس حوالے سے اہم پیش رفت کا امکان ہے ۔ اجلاس کی صدارت وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کریں گے ۔
مقامی وقت کے مطابق چھ بجے شروع ہونے والے اس اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہان اور دفاعی کمیٹی کے دیگر ارکان شریک ہو ں گے۔امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ تناظر میں دفاعی کمیٹی نیٹو سپلائی کی مشروط بحالی کا فیصلہ کر لے گی ۔
پاکستانی قیادت پر نیٹو سپلائی کی بحالی کیلئے دن بدن دباؤ بڑھتا جا رہا ہے ۔نیٹو نے اس کے رد عمل میں شکاگو کانفرنس میں پاکستان کو مدعو نہیں کیا جہاں 2014ءمیں افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا جیسے اہم معاملے پر حکمت عملی طے کی جائے گی ۔
امریکی کانگریس کی آرمڈسروس کمیٹی نے بھی پاکستانی امداد کو نیٹو سپلائی کی بحالی اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی سے مشروط کرنے کی بات کی ہے لہذا نیٹو سپلائی پر موقف پاکستان کو دن بدن عالمی تنہائی کی طرف لے جا رہا ہے ۔
چھ مئی کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر دفاع احمد مختار نے پہلی مرتبہ اعتراف کیا کہ نیٹوسپلائی بحال نہ کی گئی تو یہ عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہو گی اور پاکستان پر پابندی بھی لگ سکتی ہے ۔
اتوار کے روز وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی دورہ برطانیہ سے وطن واپسی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نیٹو سپلائی بحال نہ ہوئی تو پاکستان کیلئے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی ۔وہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے حق میں ہیں اوران کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دنیا کے 48 ممالک کو ناراض نہیں کرنا چاہیے ۔
وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے بیانات سے بہت سے حلقوں میں مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستانی قیادت کو اس وقت یہ خیال کیوں نہیں آیا جب سلالہ واقعہ کے فورا بعد نیٹو سپلائی پر پابندی لگا دی تھی ، عجلت میں فیصلہ کرنے کی وجوہات کیا تھیں؟آج تو نیٹو سپلائی کی بحالی سے اتحادیوں کی ناراضگی کا خدشہ ہے تو پابندیاں عائد کرتے وقت یہ خیال کیوں نہیں آیا ؟
یہاں ایک دلچسپ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جب پاکستانی فوجیوں کی اموات ہوئی تھیں تو اس کے رد عمل میں نیٹو سپلائی بند کرنے میں فوج سب سے آگے تھی لیکن آج کیا وجہ ہے کہ سپلائی کی بحالی کیلئے سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ کو آگے لایا جا رہا ہے ؟
نیٹو سپلائی کی بحالی نہ صرف پاکستان بلکہ نیٹو ممالک کیلئے بھی بہتر ہے ۔ا س کے پورے خطے پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے کیونکہ بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت کا معاملہ ہو یا شکاگو کانفرنس میں پاکستان کو مدعو نہ کرنا ، یہ معاملہ کسی ایک ملک کیلئے نہیں بلکہ پورے خطے کیلئے انتہائی منفی اثرات رکھتا ہے اور ان تمام تر عوامل سے شر پسندوں کے علاوہ کسی کو فائدہ نہیں پہنچے گا ۔
مبصرین سلالہ حملے کو نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ سمیت اتحادی ممالک کیلئے بھی انتہائی سبق آموز اور آخری موقع خیال کر رہے ہیں ۔ افغانستان میں جنگ آخری مراحل میں ہے اور ایک دوسرے کے اتحاد کے بغیر اس جنگ میں فتح پانا شاید ممکن نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اب غلطی کی گنجائش بالکل نہیں رہی ۔ خاص طور پر پاکستان کے لئے حالات انتہائی نازک ہیں ۔
امریکہ اور اتحادی تو افغان جنگ سے واپس چلے جائیں گے لیکن پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کو تو یہیں رہنا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے لئے پھر80 کی دہائی جیسے حالات پیدا ہو جائیں ۔لہذا صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستانی قیادت کو نہ صرف کھلے ذہن سے موجودہ صورتحال سے نبردآزما ہونا چاہئے بلکہ آنے والے وقت کیلئے بھی حکمت عملی طے کرنا ہو گی ۔
اتوار کے روز وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی دورہ برطانیہ سے وطن واپسی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نیٹو سپلائی بحال نہ ہوئی تو پاکستان کیلئے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی