پوٹن بیجنگ روانہ، نیٹو کا اضافی امریکی فوج یورپ بھیجنے کا خیرمقدم

فائل فوٹو

انسانی حقوق کے معاملے پر چین کےریکارڈ پر تشویش کے باعث امریکی اور یورپی اہل کار بیجنگ سرمائی اولمپکس سے دور رہنا پسند کریں گے، تاہم دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پوٹن وہاں شرکت کرنے پر مصر ہیں، شاید اس لیے کہ باقی دنیا یوکرین کی سرحد کے ساتھ روسی فوجوں کی تعیناتی کے معاملے پر تناؤ کی صورت حال سے دوچار ہے۔

پوٹن جمعے کے دن چین کے صدر شی جن پنگ سے مذاکرات کرنے والے ہیں، جو 2019ء کے بعد ان کی پہلی بالمشافہ ملاقات ہوگی۔ دونوں سربراہان سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے، جس کے بعد دوپہر کے کھانے پر پوٹن اور شی علیحدگی میں ملاقات کریں گے، جس کا مقصدمغربی دباؤ کے تناظر میں روس اور چین تعلقات میں قربت پیدا کرنا اورباہمی پالیسیوں کو مربوط بنانا ہے۔

چین کے سرکاری خبررساں ادارے، شنہوا نے جمعرات کو شائع ایک مضمون میں کہا ہے کہ پوٹن نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کے اقدام پر تنقید کی ہے۔ پوٹن نے کہا ہے کہ عالمی امور میں چین ''استحکام پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے'اور بین الاقوامی امور کو 'مساوی اور مزید جامع'' بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔

روسی صدر نے کہا ہے کہ کچھ ممالک اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے کھیلوں کے شعبے کو استعمال کر رہے ہیں، جس سے واضح طور پر مراد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اولمپک کھیلوں کے سفارتی بائیکاٹ لی جاسکتی ہے۔

SEE ALSO: یوکرین تنازع: امریکہ مزید دو ہزار فوجی پولینڈ اور جرمنی بھیجےگا، پینٹاگان

اس بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے، یورپی یونین کی خاتون ترجمان، نبیلہ مسرالی نے کہا ہے کہ'' اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم دیانتداری سے کھیلوں کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں؛ ساتھ ہی ہم انسانی حقوق کی حرمت کے آفاقی اصولوں کی آبیاری پر یقین رکھتے ہیں''۔

مرسالی نے کہا کہ عمومی طور پر اولمپکس جیسی تقریبات میں ساری عالمی برادری دلچسپی رکھتی ہے۔ عالمی کھیل مثبت اقدار، آزادی اور انسانی حقوق کے فروغ کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم، ایسے مواقع کو سیاسی پروپیگنڈا کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

SEE ALSO: امریکہ روس کو جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے، پوٹن کا الزام

چین کے علاقے سنکیانگ کے شمال مغربی خطے میں 10 لاکھ سے زائد ایغور مسلمانوں کو حراستی کیمپ میں رکھےجانے کے معاملے پر اپنے تحفظات کی بنا پر متعدد مغربی عہدے دار بیجینگ اولمپک گیمز میں شرکت سے گریز کر رہے ہیں۔ لیکن سابق سوویت وسط ایشیائی ملکوں کے رہنما جن کے روس اور چین کے ساتھ قریبی مراسم ہیں، پوٹن کے اقدام کی حمایت میں اولمپک تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔

ادھر جمعرات کے روز چین کے ایک میڈیا گروپ کے ساتھ انٹرویو میں پوٹن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ' ہم کھیلوں کو سیاسی دباؤ، غیر منصفانہ مسابقت اور امتیاری برتاؤ سے دور رکھنا چاہتے ہیں''۔

اس سے قبل، جمعرات ہی کے روز نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژاں اسٹولٹنبرگ نے یورپ میں اضافی فوج تعینات کرنے کے امریکی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ روس یوکرین سرحد پر تناؤ کے پیش نظر، نیٹو اضافی لڑاکا دستے جنوب مشرقی خطے کے اپنے اتحادی ملکوں کی جانب روانہ کرنے پر غور کر رہا ہے۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)