پاکستان میں رواں سال ہونے والے عام انتخابات سے پہلے بعض حلقوں کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ یہ انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں تاہم پاکستان کی چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین میں ایسے کسی اقدام کی کوئی گنجائش نہیں۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن بروقت ہوں گے اور عدلیہ کسی غیر آئینی اقدام کو قبول نہیں کرے گی۔
چیف جسٹس کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب میڈیا اور بعض سیاسی حلقوں میں ایک تاثر دیا جا رہا ہے کہ شاید انتخابات اپنے مقررہ وقت پر نہ ہو سکیں۔
ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے حق میں ہیں اور ان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوئی بھی کوشش ملک کے جمہوری نظام کے لیے نقصان دہ ہو گی۔
سیاسی امور کے سینئر تجزیہ کار احمد بلال محبوب نے جمعے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اگر حکمران جماعت اور سابق وزیر اعظم نواز شریف عوام میں مقبول رہتے ہیں اور ان کی ساکھ کو متاثر ہونے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں تو شاید ان کے خیال میں انتخاب ملتوی کرنے کی کوشش کی جائے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
’ اگر ایسا کوئی اقدام کیا گیا تو یہ ملک ک لیے بہت نقصان دہ ہے اور ملک کو عدم استحکام کے طرف جانے کا بدقسمت اقدام ہو گا اور میں نہیں سمجھتا کہ کو ئی بھی شخص یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ایسا کرے گا۔‘
پاکستانی فوج کے میجر جنرل آصف غفور بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اور فوج کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوسری طرف وزیر اعظم نواز شریف نے چیف جسٹس کے بروقت انتخابات سے متعلق بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں حالیہ سینٹ کے انتخاب میں ووٹوں کی مبینہ خرید وفرخت کے معاملے کا نوٹس بھی لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو یہ اہتمام بھی کرنا چاہیے کہ انتخابات میں تمام جماعتوں کو یکساں مواقع ملیں۔
’ مگر اس کے ساتھ انہیں اس بات کا اہتمام بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ (انتخابات میں ) معیار سب کے لیے یکسان ہو، میدان سب کے لیے کھلا ہو، یہ نہیں ہونا چاہیےکہ کسی کے ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور کسی کو کھلا میدان دے دیا جائے کہ آپ جو مرضی کریں۔‘
پارلیمان کے ایوان بالا سینیٹ کے گزشتہ ماہ کے اوائل میں ہونے والے انتخاب سے متعلق بعض سیاسی جماعتوں کی طرف ایسے الزامات سامنے آ چکے ہیں کہ بعض امیدواروں نے ووٹوں کے لیے پسرمائے کا استعمال کیا۔ تاہم اس حوالے سے ابھی تک کسی بھی جماعت یا فرد کی طرف سے ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے گئے۔