پاکستان کی نگران حکومت نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا ٹرائل جیل میں کرنے کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اب اس مقدمے کی سماعت کھلی عدالت میں ہوگی۔
نگران وزیرِ اطلاعات و قانون علی ظفر نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ یہ فیصلہ بدھ کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت کی طرف سے ایون فیلڈ ریفرنس میں قید کی سزا سنائے جانے کے بعد اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
واضح رہے کہ جمعہ 13 جولائی کو وطن واپسی کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری کے بعد وفاقی وزارتِ قانون نے ایک نوٹی فکیشن جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل جیل میں ہی کرے گی۔
اس فیصلے پر سابق وزیرِ اعظم کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے کڑی تنقید کی تھی اور اس فیصلے کو آئین میں دیے گئے صاف اور شفاف ٹرائل کے حق کی نفی قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم بدھ کو وزیرِ اطلاعات و قانون علی ظفر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ قبل ازیں جیل میں ٹرائل کرنے کا فیصلہ بعض سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کیا گیا تھا لیکن ان کے بقول اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ ٹرائل کھلی عدالت مں ہی ہوگا۔
علی ظفر نے کہا کہ ہر شہری آئین کے آرٹیکل 10 کے تحت صاف و شفاف اور اوپن ٹرائل کو حق رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا، "ہم (کابینہ) نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ احتساب عدالت میں (نواز شریف کے خلاف) ٹرائل کی سماعت کھلی عدالت میں، احتساب عدالت کی عمارت میں ہوگی اور اگر ضرورت پیش آئی اور وزارتِ داخلہ سمجھتی ہے کہ سکیورٹی کے خطرات ہیں تو وہ دوبارہ کسی اور جگہ احتساب عدالت منتقل کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔"
واضح رہے کہ 6 جولائی کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے بدعنوانی کے ایک مقدمے میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی کو 7 سال اور ان کے داماد کپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزائیں سنائی تھیں۔
فیصلے کے دو روز بعد کیپٹن صفدر نے راولپنڈی سے گرفتار دے دی تھی جب کہ نواز شریف اور مریم نواز کو جمعہ 13 جولائی کو لندن سے لاہور پہنچنے پر گرفتار کرکے راولپنڈی کے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔