’نگلیریا‘ ایک ایسا امیبا ہے جو اگر ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہوجائے تو اسے پوری طرح چاٹ جاتا ہے۔ یہ گرم پانی میں بہت تیزی سے پرورش پاتا ہے۔ اس سے متاثر فرد پر سات دن میں علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں جو گردن توڑ بخار سے ملتی جلتی ہیں
کراچی —
دن بھر کی چلچلاتی ہوئی دھوپ کی تمازت کے بعد شام کی کھلی فضا کا مزہ اٹھانے کے لئے ’نارتھ کراچی جیم خانہ‘ ۔۔تپتے ہوئے صحرا میں گھنے سائبان کی مانند ہے۔
یکم جون کو اسکول اور کالجز کی چھٹیاں کا اعلان ہوا تو اس کے ایک کونے میں بنے سوئمنگ پول پر گویا بچوں اور نوجوانوں کے جمگٹھے لگنے لگے۔ تین فٹ سے چھ فٹ دو انچ تک گہرے سوئمنگ پول پر نہانے کا مزا گرمی کی چھٹیوں کا لطف دوبالا کردیا کرتا تھا، مگر نگلیریا کی خطرناک خبروں کا منظرعام پر آنا تھا کہ سوئمنگ پول پر ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔
پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر پروگرامر اور مستقل بنیادوں پر نارتھ کراچی جیم خانہ آنے والے محمد مبشر نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سے بات چیت میں بتایا ’فروری کے آخر اور مارچ کے شروع میں جیسے ہیں موسم گرم ہوا بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد سوئمنگ پول پر آنے لگی حتیٰ کہ ہفتہ اتوار اور دیگر چھٹی والے دنوں میں تو یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ، ’مئی کے وسط میں امتحانات ختم ہوئے تو یہاں آنے والوں کی بھیڑ مزید بڑھ گئی۔ لیکن، جون کے پہلے ہفتے میں جیسے ہی سوئمنگ پولز میں نگلیریا کی موجودگی کے امکانات سے متعلق خبریں آئیں لوگوں پر خوف طاری ہوگیا۔ رفتہ رفتہ یہاں آنے والوں کی تعداد گھٹی چلی گئی حالانکہ میں گواہ ہوں پول کی انتظامیہ پانی کو باقاعدہ کلورینیڈ کرتی ہے۔ لیکن، پھر بھی یہاں آنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔‘
نگلیریا کیا ہے ؟
ڈاکٹر عیسیٰ لیبارٹری اینڈ ڈائیگنوسٹک سینٹر کراچی سے وابستہ ڈاکٹر فیروز بخت کا کہنا ہے کہ ’نگلیریا‘ ایک ایسا امیبا ہے جو اگر ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہوجائے تو اسے پوری طرح چاٹ جاتا ہے۔ یہ گرم پانی میں بہت تیزی سے پرورش پاتا ہے ۔ اس سے متاثر فرد پر سات دن میں علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں جو گردن توڑ بخار سے ملتی جلتی ہیں۔ سرمیں تیز درد ہونا، الٹیاں یا متلی آنا ، گردن اکڑ جانا اور جسم میں جھٹکے لگنا اس کی واضح علامات ہیں ۔“
واٹر پارکس، سوئمنگ پولز، تالاب یا اسی قسم کے پانی کے ذخیرے جو عموماً کھلی فضاء میں واقع ہوتے ہیں وہاں گرمی کی شدت سے ان کاپانی گرم ہو جاتا ہے جو نگلیریا کے جرثومے کو ایکٹیو کر دیتا ہے۔ لہذا، اگرکوئی شخص اس پانی سے وضو کرلے یا اس میں نہالے اور یہ امیبا اس کے دماغ میں چلاجائے تو متاثرہ شخص سات دن کے اندر کومے میں بھی جاسکتا ہے جبکہ اس کی موت کے امکانات بھی بہت حد بڑھ جاتے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے مائیکروبائیلوجسٹ ڈاکٹر عقیل احمدنگلیریا کے حوالے سے مزید بتاتے ہیں: ’پاکستان میں جون، جولائی اور اگست نگلیریا کی قیامت خیزی کے مہینے ہیں ۔ اس مہینوں میں فارم ہاوٴسز اور اور دوسری جگہوں پر بنے ہوئے سوئمنگ پولز سے دور رہا جائے کیوں کہ یہ پولز ان دنوں امیبا کی آماجگاہیں ہوتی ہیں۔ اکثر پولز میں طے شدہ بین الاقوامی معیار کے مطابق کلورین نہیں ڈالی جاتی اس لئے بھی نگلیریا ایکٹیو ہوسکتا ہے۔‘
ڈاکٹر عقیل کے مطابق اگر واٹر سپلائی لائنز کہیں سے بھی رس رہی ہوں تو ان میں امیبا کی موجودگی کے امکانات بہت حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ بیشتر فارم ہاوٴسز شہر سے کچھ فاصلے پر واقع ہیں۔ لہذا، ان کی پائپ لائنز میں لکیج کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔
ان کے بقول، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی جانب سے فراہم کئے جانے والے پانی میں بھی کلورین ملانا بہت ضروری ہے کیوں کہ ’کے ڈبلیو اینڈ ایس بی‘ کی پائپ لائنز جگہ جگہ سے رستی رہتی ہیں۔ رستی ہوئی جگہوں سے پانی آپ تک پہنچتا ہے اور جہاں سے پانی رستا ہے وہیں سے امیبا اس میں داخل ہوسکتا ہے۔ دراصل یہی امیبا نگلیریا کا بنیادی سبب ہے۔
نگلیریا مالی نقصان کا بھی باعث
نگلیریا صحت کے ساتھ ساتھ مالی نقصان کا بھی باعث ہے۔ سوئمنگ پولز اور واٹرپارکس آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ فی الوقت کراچی میں ایک درجن سے زیادہ واٹر پارکس ہیں جیسے الٰہ دین، سندباد، کوزی، سیم زو، فیسٹا، واٹر ورلڈ، سن وے لیگون، پکنک ورلڈ، اپنا واٹر ورلڈ، چیکو، ڈریم ورلڈ، وغیرہ۔ اس کے علاوہ سوئمنگ پولز کی تعداد بھی اتنی ہی بنتی ہے۔ کچھ سوئمنگ پولز تو مختلف فارم ہاوسز میں بھی بنے ہوئے ہیں جہاں ایک بار کی فیملی پکنک پر ہزاروں کا خرچ آتا ہے۔
تیس ایکٹر رقبے پر پھیلاہو االٰہ دین واٹر پارک شہر کے ابتدائی واٹر پارکس میں سے ایک ہے جہاں انتہائی جدید قسم کی واٹر سلائیڈزاور رائیڈز نصب ہوئے۔ ان کی مجموعی تعداد 40 کے قریب ہے۔ ظاہر ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں واٹر سلائیڈز لگی ہوں وہاں ایک فرد کاکرایہ دو تین سو روپے سے کم کیا ہوگا۔
چونکہ، یہ پارک شہر کے وسط میں ہے اور جہاں جانے کے لئے خصوصی بسوں یاویگنوں کو کرائے پر لینے کی ضرورت نہیں پڑتی اور عام مسافر بسوں اور دیگر ذرائع آمد و رفت سے یہاں پہنچا جاسکتا ہوں۔ لہذا، یہاں ایک دن میں کم از کم 5یا سات ہزار افراد کی آمد کا تو تخمینہ لگایا ہی جاسکتا ہے۔
تاہم، اگر یہ پارک نگلیریا کے خوف سے بند ہوتو پھرنقصان بھی لاکھوں روپے یومیہ ہی ہوگا۔ پھر تمام واٹرپارکس کی آمدنی کو جمع کرلیا جائے تو یومیہ نقصان لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں تک جاپہنچتا ہے۔
نگلیریا کے خلاف حکومتی کوششیں اور اقدامات
سرکاری خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کی صوبائی حکومت نے نگلیریا سے نمٹنے کے لئے بہت سے مثبت اقدامات اٹھائے ہیں۔ وزیر بلدیات و اطلاعات اور چیئرمین واٹر بورڈ شرجیل انعام میمن کے مطابق صوبے بھر میں نگلیریا سے بچاؤ کیلئے سندھ حکومت اور محکمہ واٹر بورڈ نے مانیٹرنگ سیل قائم کیا ہے جس کا بنیادی کام پانی کو کلورین سے صاف کرنا ، اس کی کڑی نگرانی کرنا اور پانی کے نمونوں کی لیبارٹری سے جانچ پڑتال کرانا ہے۔
واٹر اینڈ سوریج بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر قطب الدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے عوامی سطح پر نگلیریا سے بچاوٴ کے لئے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم شروع کررکھی ہے ۔ عوام سے اپیل کی جارہی ہے کہ وہ اپنے گھر کے اوور ہیڈ اور انڈر گراؤنڈ واٹر ٹینکس، ڈرم اور ٹنکیاں لازمی صاف کرالیں تاکہ امیبا سے محفوظ رہا جاسکے۔
یکم جون کو اسکول اور کالجز کی چھٹیاں کا اعلان ہوا تو اس کے ایک کونے میں بنے سوئمنگ پول پر گویا بچوں اور نوجوانوں کے جمگٹھے لگنے لگے۔ تین فٹ سے چھ فٹ دو انچ تک گہرے سوئمنگ پول پر نہانے کا مزا گرمی کی چھٹیوں کا لطف دوبالا کردیا کرتا تھا، مگر نگلیریا کی خطرناک خبروں کا منظرعام پر آنا تھا کہ سوئمنگ پول پر ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔
پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر پروگرامر اور مستقل بنیادوں پر نارتھ کراچی جیم خانہ آنے والے محمد مبشر نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سے بات چیت میں بتایا ’فروری کے آخر اور مارچ کے شروع میں جیسے ہیں موسم گرم ہوا بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد سوئمنگ پول پر آنے لگی حتیٰ کہ ہفتہ اتوار اور دیگر چھٹی والے دنوں میں تو یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ، ’مئی کے وسط میں امتحانات ختم ہوئے تو یہاں آنے والوں کی بھیڑ مزید بڑھ گئی۔ لیکن، جون کے پہلے ہفتے میں جیسے ہی سوئمنگ پولز میں نگلیریا کی موجودگی کے امکانات سے متعلق خبریں آئیں لوگوں پر خوف طاری ہوگیا۔ رفتہ رفتہ یہاں آنے والوں کی تعداد گھٹی چلی گئی حالانکہ میں گواہ ہوں پول کی انتظامیہ پانی کو باقاعدہ کلورینیڈ کرتی ہے۔ لیکن، پھر بھی یہاں آنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔‘
نگلیریا کیا ہے ؟
ڈاکٹر عیسیٰ لیبارٹری اینڈ ڈائیگنوسٹک سینٹر کراچی سے وابستہ ڈاکٹر فیروز بخت کا کہنا ہے کہ ’نگلیریا‘ ایک ایسا امیبا ہے جو اگر ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہوجائے تو اسے پوری طرح چاٹ جاتا ہے۔ یہ گرم پانی میں بہت تیزی سے پرورش پاتا ہے ۔ اس سے متاثر فرد پر سات دن میں علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں جو گردن توڑ بخار سے ملتی جلتی ہیں۔ سرمیں تیز درد ہونا، الٹیاں یا متلی آنا ، گردن اکڑ جانا اور جسم میں جھٹکے لگنا اس کی واضح علامات ہیں ۔“
واٹر پارکس، سوئمنگ پولز، تالاب یا اسی قسم کے پانی کے ذخیرے جو عموماً کھلی فضاء میں واقع ہوتے ہیں وہاں گرمی کی شدت سے ان کاپانی گرم ہو جاتا ہے جو نگلیریا کے جرثومے کو ایکٹیو کر دیتا ہے۔ لہذا، اگرکوئی شخص اس پانی سے وضو کرلے یا اس میں نہالے اور یہ امیبا اس کے دماغ میں چلاجائے تو متاثرہ شخص سات دن کے اندر کومے میں بھی جاسکتا ہے جبکہ اس کی موت کے امکانات بھی بہت حد بڑھ جاتے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے مائیکروبائیلوجسٹ ڈاکٹر عقیل احمدنگلیریا کے حوالے سے مزید بتاتے ہیں: ’پاکستان میں جون، جولائی اور اگست نگلیریا کی قیامت خیزی کے مہینے ہیں ۔ اس مہینوں میں فارم ہاوٴسز اور اور دوسری جگہوں پر بنے ہوئے سوئمنگ پولز سے دور رہا جائے کیوں کہ یہ پولز ان دنوں امیبا کی آماجگاہیں ہوتی ہیں۔ اکثر پولز میں طے شدہ بین الاقوامی معیار کے مطابق کلورین نہیں ڈالی جاتی اس لئے بھی نگلیریا ایکٹیو ہوسکتا ہے۔‘
ڈاکٹر عقیل کے مطابق اگر واٹر سپلائی لائنز کہیں سے بھی رس رہی ہوں تو ان میں امیبا کی موجودگی کے امکانات بہت حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ بیشتر فارم ہاوٴسز شہر سے کچھ فاصلے پر واقع ہیں۔ لہذا، ان کی پائپ لائنز میں لکیج کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔
ان کے بقول، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی جانب سے فراہم کئے جانے والے پانی میں بھی کلورین ملانا بہت ضروری ہے کیوں کہ ’کے ڈبلیو اینڈ ایس بی‘ کی پائپ لائنز جگہ جگہ سے رستی رہتی ہیں۔ رستی ہوئی جگہوں سے پانی آپ تک پہنچتا ہے اور جہاں سے پانی رستا ہے وہیں سے امیبا اس میں داخل ہوسکتا ہے۔ دراصل یہی امیبا نگلیریا کا بنیادی سبب ہے۔
نگلیریا مالی نقصان کا بھی باعث
نگلیریا صحت کے ساتھ ساتھ مالی نقصان کا بھی باعث ہے۔ سوئمنگ پولز اور واٹرپارکس آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ فی الوقت کراچی میں ایک درجن سے زیادہ واٹر پارکس ہیں جیسے الٰہ دین، سندباد، کوزی، سیم زو، فیسٹا، واٹر ورلڈ، سن وے لیگون، پکنک ورلڈ، اپنا واٹر ورلڈ، چیکو، ڈریم ورلڈ، وغیرہ۔ اس کے علاوہ سوئمنگ پولز کی تعداد بھی اتنی ہی بنتی ہے۔ کچھ سوئمنگ پولز تو مختلف فارم ہاوسز میں بھی بنے ہوئے ہیں جہاں ایک بار کی فیملی پکنک پر ہزاروں کا خرچ آتا ہے۔
تیس ایکٹر رقبے پر پھیلاہو االٰہ دین واٹر پارک شہر کے ابتدائی واٹر پارکس میں سے ایک ہے جہاں انتہائی جدید قسم کی واٹر سلائیڈزاور رائیڈز نصب ہوئے۔ ان کی مجموعی تعداد 40 کے قریب ہے۔ ظاہر ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں واٹر سلائیڈز لگی ہوں وہاں ایک فرد کاکرایہ دو تین سو روپے سے کم کیا ہوگا۔
چونکہ، یہ پارک شہر کے وسط میں ہے اور جہاں جانے کے لئے خصوصی بسوں یاویگنوں کو کرائے پر لینے کی ضرورت نہیں پڑتی اور عام مسافر بسوں اور دیگر ذرائع آمد و رفت سے یہاں پہنچا جاسکتا ہوں۔ لہذا، یہاں ایک دن میں کم از کم 5یا سات ہزار افراد کی آمد کا تو تخمینہ لگایا ہی جاسکتا ہے۔
تاہم، اگر یہ پارک نگلیریا کے خوف سے بند ہوتو پھرنقصان بھی لاکھوں روپے یومیہ ہی ہوگا۔ پھر تمام واٹرپارکس کی آمدنی کو جمع کرلیا جائے تو یومیہ نقصان لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں تک جاپہنچتا ہے۔
نگلیریا کے خلاف حکومتی کوششیں اور اقدامات
سرکاری خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کی صوبائی حکومت نے نگلیریا سے نمٹنے کے لئے بہت سے مثبت اقدامات اٹھائے ہیں۔ وزیر بلدیات و اطلاعات اور چیئرمین واٹر بورڈ شرجیل انعام میمن کے مطابق صوبے بھر میں نگلیریا سے بچاؤ کیلئے سندھ حکومت اور محکمہ واٹر بورڈ نے مانیٹرنگ سیل قائم کیا ہے جس کا بنیادی کام پانی کو کلورین سے صاف کرنا ، اس کی کڑی نگرانی کرنا اور پانی کے نمونوں کی لیبارٹری سے جانچ پڑتال کرانا ہے۔
واٹر اینڈ سوریج بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر قطب الدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے عوامی سطح پر نگلیریا سے بچاوٴ کے لئے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم شروع کررکھی ہے ۔ عوام سے اپیل کی جارہی ہے کہ وہ اپنے گھر کے اوور ہیڈ اور انڈر گراؤنڈ واٹر ٹینکس، ڈرم اور ٹنکیاں لازمی صاف کرالیں تاکہ امیبا سے محفوظ رہا جاسکے۔