پچھلے سال امریکہ میں سٹرکوں پر ہونے والے حادثات میں 43 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ٹریفک حادثوں میں گزشتہ 16 برسوں کی بلند ترین سطح ہے جب عالمی وبا کا زور ٹوٹنے کے بعد لوگ اپنی معمول کی زندگی بحال کرنے کے لیے سٹرکوں کی جانب لوٹ رہے تھے۔
ہائی وے ٹریفک سیفٹی ایڈمنسٹریشن 1975 سے ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھ رہی ہے،اس کا کہنا ہے کہ 2021 میں سڑکوں پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2020 کے مقابلے میں ساڑھے 10 فی صد زیادہ ہے۔ ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ سال لوگوں نے سڑکوں پر ایک سال پہلے کے مقابلے میں 325 ارب میل زیادہ سفر کیا۔ یہ طوالت سڑکوں پر لوگوں کی نقل و حرکت میں تقریباً سوا 11 فی صد اضافے کی نشاندہی کرتی ہے۔
سڑکوں کے حادثوں میں انسانی جانوں کا ضیاع اور معذوری صرف ترقی پذیر ملکوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ امریکہ اور یورپ سمیت ترقی یافتہ ممالک بھی اس کا سامنا ہے اور وہ سڑکوں کو زندگیوں کے لیے محفوظ بنانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔
سڑکوں پر تحفظ کے ادارے نے ریاستوں، مقامی حکومتوں، ڈرائیوروں اور محفوظ سفر کے لیے کام کرنے والے گروپس سے کہا ہے کہ وہ سڑکوں پر بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر قابو پانے کے لیے آگے آئیں اور مل کر کام کریں۔
نشے میں گاڑی چلانے والے ڈرائیووں کے خلاف ماؤں کی امریکی تنظیم کی صدر ایلکس اوٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہماری قوم ٹریفک سیفٹی اور محتاط ڈرائیونگ کے سلسلے میں خطرات کی مزید نچلی سطح پر چلی گئی ہے۔ اب پہلے سے زیادہ گھرانے اور کمیونیٹیز سڑکوں پر جنم لینے والے حادثات کا دکھ جھیل رہے ہیں۔
ٹریفک حادثات کے سلسلے میں منظر عام پر آنے والے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال وفاقی علاقے ڈسٹرک آف کولمبیا، ٹیکساس، کیلی فورنیا اور فلوریڈا میں سڑکوں پر ہلاکتوں میں اضافہ ہوا اور ملک بھر میں روزانہ اوسطاً 118 افراد ٹریفک حادثات میں اپنی جانوں سے محروم ہوتے رہے۔ ٹریفک سیفٹی حکام کا کہنا ہے کہ اس کی زیادہ تر وجہ ڈرائیوروں کا بڑھتا ہوا خطرناک طرز عمل ہے۔ مثال کے طور پر تیز رفتاری، نشے کی حادت میں ڈرائیونگ کرنا، گاڑی چلاتے ہوئے سڑک پر توجہ مرکوز نہ کرنا، گاڑیوں کے درمیان مناسب فاصلہ نہ رکھنا اور سڑک نصب حفاظتی ہدایات کو نظر انداز کرنا۔
شاہراہوں پر تحفظ کے ادارے کا کہنا ہے کہ پچھلے سال تقریباً ہر نوعیت کے حادثات میں ہونے والی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا، جیسا کہ ہائی ویز پر یہ تعداد ایک سال پہلے کے مقابلے میں 15 فی صد تک بڑھی، شہری علاقوں میں کئی گاڑیاں ایک ساتھ ٹکرانے کے واقعات میں اموات 16 فی صد، جب کہ پیدل چلنے والوں کی ہلاکتیں 13 فی صد سے زیادہ بڑھ گئیں۔ اگر مرنے والوں کی عمروں کے تناسب کو سامنے رکھا جائے تو اس میں بھی ہر سطح پر اضافہ ہوا۔ حادثوں میں ہلاک ہونے والے 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں 14 فی صد، 35 سے 44 سال کی عمر کے لوگوں میں 15 صد، جب کہ 16 سال سے کم عمر بچوں میں یہ اضافہ 2020 کے مقابلے میں 6 فی صد تھا۔ اگر گاڑیوں کے سائز کو پیش نظر رکھا جائے تو ٹرکوں اور بڑی گاڑیوں کے حادثوں میں مرنے والوں کی تعداد کم ازکم 13 فی صد بڑھی، موٹر سائیکل کے حادثوں کی اموات میں 9 فی صد اور جب کہ سڑکوں پر اموات میں 5 فی صد اصافے کا سبب نشے کی حالت میں گاڑیاں چلانے والے ڈرائیور تھے۔
سڑکوں پر انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے حکام کچھ نئے ضابطے ترتیب دے رہے ہیں جن میں نئی گاڑیوں میں ہنگامی صورت حال میں خودکار طریقے سے بریک لگانے اور سڑک پر پیدل چلنے والوں کو شناخت کر کے گاڑی روکنے کا الیکٹرانک نظام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی گاڑیوں، خاص طور پر ٹرکوں میں ہنگامی صورت حال میں بریکوں کے خودکار الیکٹرانک نظام کی تجویز دی گئی ہے۔
روڑ سیفٹی کے حکام نے گاڑیاں بنانے والوں کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ وہ نئی گاڑیوں میں ایسا نظام بھی نصب کریں جو ڈرائیور کو اس بارے میں خبردار کرے کہ آیا پچھلی نششت پر بیٹھے ہوئے مسافروں نے سیٹ بیلٹ باندھی ہے یا نہیں۔ امریکہ کی اکثر ریاستوں میں اب پچھلی نشستوں کے لیے بیلٹ باندھنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بائیڈن انتظامیہ اس بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو پانے کے لیے پانچ ارب ڈالر فراہم کرے گی۔ ٹرانسپورٹ پروٹیکشن کے وزیر پیٹ بوٹی جیج نے بتایا ہے کہ ان کے محکمے کو سڑکوں اور گلیوں کو محفوظ بنانے کے نئے پروگرام کے تحت پانچ سال تک یہ فنڈز ملیں گے۔ اس پروگرام کے ذریعے گاڑیوں کی رفتار میں کمی لانا، سائیکل چلانے والوں کے لیے راستے بنانا، پیدل چلنے کے راستوں کو کشادہ کرنا اور لوگوں کو سفر کے لیے میٹرو اور بسیں استعمال کرنے کی جانب راغب کرنا شامل ہیں۔
پاکستان میں ٹریفک حادثوں کی ہلاکتیں کل اموات کا ڈھائی فی صد
ورلڈ ہیلتھ رینکنگ ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں 2018 میں 30 ہزار سے زیادہ افراد ٹریفک حادثات میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے جو کل سالانہ اموات کا ڈھائی فی صد ہے۔ تاہم حادثات کے اعداد و شمار جمع کرنے کوئی منظم نظام موجود نہ ہونے کے سبب سالانہ بنیادوں پر ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔
غیر معیاری سڑکوں، خراب گاڑیوں اور غیر محتاط ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ اس وجہ سے یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کہ بہت سے حادثات رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔
(خبر کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)