پاکستان کی سپریم کورٹ نے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سابق رہنما سینیٹر نہال ہاشمی کے ’دھمکی آمیز‘ بیان پر ان کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں داخل کیے گئے جواب کو مسترد کرتے ہوئے 10 جولائی کو ان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
نہال ہاشمی نے عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے بیان میں موقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے توہین عدالت نہیں کی ہے اور ان کی تقریر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ تاہم عدالت نے ان کا موقف مسترد کر دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے اواخر میں نہال ہاشمی کی ایک تقریر کی ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کا حساب لینے والوں کے خلاف 'اشتعال انگیز' بیان دیتے ہوئے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔
عدالت عظمیٰ نے نہال ہاشی کے اس بیان کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے انہیں اپنے بیان کی وضاحت کرنے کا کہا تھا۔
جمعے کو جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کی تو نہال ہاشمی عدالت میں موجود نہیں تھے۔
عدالت کے استفسار پر نہال ہاشمی کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ نہال ہاشمی عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں ہیں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ انہیں آج یہاں موجود ہونا چاہیے تھا کیونکہ انہوں نے عدالت سے حاضری سے استثنا حاصل نہیں کیا تھا۔
تاہم ان کے وکیل نے کہا کہ گزشتہ پیشی کے دوران انھوں نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ وہ بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔
نہال ہاشمی کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا تھا جب وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم 'جے آئی ٹی' اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے جس کے سامنے وزیر اعظم نواز شریف، ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اور ان کے بیٹے حسین اور حسن بھی پیش ہو چکے ہیں۔