نیپال کے سابق وزیرِ اعظم مادھو کمار نیپال نے جون میں ماؤ نوازوں کی قیادت میں ہونے والے زبردست مظاہروں کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ وہ ایسی حکومت بنائیں جس میں دوسری پارٹیاں بھی شامل ہوں۔ لیکن ہفتوں کے مذاکرات کے بعد، تین بڑی پارٹیوں، ماؤ نواز پارٹی، نیپالی کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کے درمیان اس سوال پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا کہ نئی حکومت کا سربراہ کون ہوگا۔
قانون سازوں نے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے دو مرتبہ ووٹ ڈالے ، لیکن دونوں بار، نہ ماؤ نواز لیڈر جنہیں عام لوگ پراچندا کہتے ہیں اور نہ ہی نیپالی کانگریس کے امیدوار، رام چندرا پوڈل، اکثریت حاصل کر سکے۔ یہ صورتِ حال 2008 ء کے زمانے سے بالکل مختلف ہے، جب امن سمجھوتے کے نتیجے میں دس سالہ متشدد بغاوت ختم ہوئی ، انتخابات ہوئے اور ماؤ نواز باغی سیاسی دھارے میں شامل ہو گئے۔ ان تاریخی انتخابات کے ذریعے سابق چھاپہ مار بر سرِ اقتدار آئے۔ اگرچہ ماؤ نوازوں کو واضح اکثریت نہیں ملی تھی، لیکن انھوں نے بڑی آسانی سے دوسری پارٹیوں کی حمایت حاصل کر لی ۔ ملک میں ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی اور امن و استحکام کی باتیں ہونے لگیں۔ لیکن سابق چھاپہ ماروں کا سحر جلد ہی کافور ہو گیا اور ماؤ نوازوں کی قیادت میں بننے والی حکومت ایک برس سے بھی کم عرصے میں ختم ہو گئی۔
نیپال کے میگزین سامے کے ایڈیٹر اور سیاسی تجزیہ کار، یوراج گمر کہتے ہیں کہ ماؤ نوازوں کی دوسری بار حکومت تشکیل دینے کی کوششیں اس لیے کامیاب نہیں ہو رہی ہیں، کیوں کہ وہ دوسری پارٹیوں کو ساتھ ملا کر تعاون کی فضا میں کام نہیں کر سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ماؤ نواز بھی ایک لحاظ سے الگ تھلگ ہو کر رہ گئے ہیں کیوں کہ جب ماضی میں انھوں نے حکومت بنائی تھی ، تو انھوں نے مخلوط حکومت میں شامل کسی بھی پارٹی کی تجویز ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ پارٹیاں ماؤ نوازوں کی حمایت کرنے کو تیار نہیں ہیں‘‘۔
ماؤ نوازوں اور دوسری سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایک بڑا جھگڑا ان تقریباً 20,000 سابق ماؤ نواز جنگجوؤں کے بارے میں ہے جو آج کل اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں چلنے والے کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ ماؤ نواز چاہتے ہیں کہ ان سب کو فوج کا حصہ بنا دیا جائے لیکن دوسری پارٹیاں اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔
بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے وہ اصل کام پس پشت جا پڑا ہے جو پارلیمینٹ کو سونپا گیا تھا، یعنی ملک کے لیے ایک نیا آئین تحریر کرنا۔ جب مئی 2010ء کی تاریخ تک آئین تحریر نہ کیا جا سکا تو پارلیمینٹ کی مدت میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی۔ لیکن ملک میں مسلسل جاری تعطل سے یہ تشویش پیدا ہو گئی ہے کہ آئین اگلے سال تک بھی بنایا جا سکے گا یا نہیں۔
اخبار نیپالی ٹائمز کے ایڈیٹر، کندا ڈکشٹ کہتے ہیں کہ تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں نئے آئین کی تحریر پر فیصلہ کن انداز میں اثر ڈالنا چاہتی ہیں۔ اس لیے وہ الگ ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کے مطابق’’یہ بات خاص طور سے ماؤ نوازوں کے لیے صحیح ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر وہ اقتدار میں نہ ہوئے، تو آئین ان کی خواہشات کے مطابق نہیں بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار کی اتنی زبردست کشمکش جاری ہے کہ پارلیمینٹ میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے‘‘۔
سیاسی اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں سیاسی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ تقریباً چھہ مہینوں سے پارلیمینٹ نے کوئی کام نہیں کیا ہے۔ قومی بجٹ منظور نہیں کیا گیا ہے اور دنیا کے اس انتہائی غریب ملک میں معیشت اور اقتصادی ترقی منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔ کنڈا ڈکشٹ کہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں اپنے اختلافات طے کرنے اور ڈیڈلاک کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ادھر عوام میں شدید غصہ، ناراضگی اور جھنجھلاہٹ پھیل رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ’’عام لوگ محسوس کرتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں اتنی خود غرض ہیں کہ وہ مل جُل کر کام کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ ریڈیو کے ٹاک شوز میں پورے ملک سے لوگ فون کرتے ہیں اور سیاست دانوں کو جی بھر کر بُرا بھلا کہتے ہیں‘‘۔
پارلیمینٹ کا اب ایک اور اجلاس ہوگا جس میں تیسری بار ایک نیا لیڈر منتخب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن عام خیال یہی ہے کہ اس اجلاس سے بھی ڈیڈلاک ختم نہیں ہوگا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوا، تو وزیرِ اعظم کے موجودہ دو امید وار دستبردار ہو جائیں گے اور دوسروں کو موقع دیں گے کہ وہ اتفاقِ رائے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ اگر نئی حکومت بن بھی گئی تو بھی سیاسی اختلافات اور ایک دوسرے پر الزام تراشی سے امن کا نازک عمل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔