خیبر پختونخوا کے علاقے بٹگرام میں دیسی ساختہ کیبل کار میں پھنسے تمام آٹھ افراد کو ریسکیو کر لیا گیا ہے جس کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ اس ریسکیو آپریشن کی کامیابی کا کریڈٹ کس کو دیا جائے؟
بٹگرام میں منگل کو زمین سے لگ بھگ نو سو فٹ کی بلندی پر پھنسے افراد کو 14 گھنٹوں تک جاری رہنے والے ریسکیو آپریشن کے بعد بحفاظت نکال لیا گیا۔
کیبل کار میں سات طالب علم اور ایک استاد سوار تھے جو ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں معمول کے مطابق جا رہے تھے کہ کیبل کار کی ایک تار ٹوٹنے سے دیسی ساختہ کیبل کار دو پہاڑوں کے درمیان کافی بلندی پر اٹک کر رہ گئی۔
سوشل میڈیا پر معاملہ سامنے آنے کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ میں اس کی ویڈیوز نشر ہونا شروع ہوئیں جس کے بعد اعلیٰ حکام نے نوٹس لیا اور فوج نے انتظامیہ کے شروع کیے گئے ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا۔
کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد فوج متعدد ہیلی کاپٹروں کو استعمال کرتے ہوئے کیل کار میں سوار ایک بچے کو ریسکیو کر سکی۔
اطلاعات کے مطابق فوج نے سورج ڈھلنے کے بعد ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ریسکیو آپریشن روک دیا تھا ۔
منگل کی شب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے پانچ بچوں کو ریسکیو کرنے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا تھا کہ باقی تین افراد کو بحفاظت نکالنے کے لیے امدادی کارروائی رات کو بھی جاری رہے گی۔
تاہم بیان میں یہ واضح نہیں تھا کہ ان افراد کو کس طرح ریسکیو کیا گیا ہے۔
بعد ازاں امدادی رضاکاروں نے کیبل کار میں پھنسے افراد کو وہاں سے نکالا۔
نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے ریسکیو آپریشن کے کامیابی سے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے فوج کی کاوش کو سراہا۔
سوشل میڈیا پر بھی ریسکیو آپریشن کی مختلف ویڈیوز وائرل ہیں جس کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ آیا ریسکیو آپریشن کی کامیابی کا کریڈٹ فوج کو دیا جائے یا ان مقامی افراد کو جو آخری وقت تک کیبل کار میں سوار بچوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے کوشش میں مصروف رہے۔
مقامی ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ افسر نے وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فوج کے آپریشن کے دوران تین افراد کو ریسکیو کیا گیا جب کہ دیگر افراد کو مقامی لوگ ریسکیو کرنے میں کامیاب رہے۔
مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ فوج نے ایک طالب علم کو ہیلی کاپٹر کی مدد سے ریسکیو کیا تھا جب کہ باقی سات افراد کو مقامی لوگوں نے کیبل پر سوار ہو کر بچایا ہے۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی تبصرے ہو رہے ہیں۔ شہباز سواتی نامی ایک ایکس (سابقہ نام ٹوئٹر) صارف نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے والے نوجوانوں سے متعلق کہا کہ اگر انہیں پاکستان کے تمام ایوارڈز سے بھی نوازا جائے تو انہیں ان کی اس خدمت کا صلہ نہیں دیا جا سکتا۔
سابق وفاقی وزیرِ داخلہ اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے ایک بیان میں کہا کہ مقامی لفٹ ماہرین نے جس طرح اپنی جان پر کھیل کر بچوں کو بچایا یقیناً ان کے بلند حوصلوں نے سب کے دل جیت لیے ہیں۔
صحافی زبیر علی خان نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ بارہ گھنٹوں کی مسلسل کوشش کے بعد مقامی افراد کے اپنائے گئے طریقۂ کار نے بٹگرام چئیر لفٹ میں پھنسے بچوں کی زندگی بچا لی۔اس کے ساتھ ہی ان کا تبصرہ تھا کہ باقی سب پیڈ کنٹینٹ ہے۔
صحافی نوشین یوسف نے ایک ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مقامی افراد ریسکیو آپریشن کی باقاعدہ تربیت نہ رکھنے کے باوجود بہترین ریسکیو کا کام کرتے ہیں۔
حمزہ اظہر سلام نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ پاکستانی قوم مشکل حالات سے نکلنے والی ہے کیوں کہ پاکستانی لوگوں نے ہار ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
صحافی حسن ایوب خان نے ایک ویڈیو پر تبصرہ کیا کہ پاکستان فوج اور مقامی افراد نے مل کر قیمتی انسانوں جانوں کو بچایا ہے۔
ایک صاف سجاد بلوچ کا تبصرہ تھا کہ چیئر لفٹ میں پھنسے بچوں کو ریسکیو کرنے کے لیے مقامی افراد کی کوشش کارگر ثابت ہونے لگی۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس کام کی اجازت دن میں دی جاتی تو تمام افراد ریسکیو ہوچکے ہوتے۔ وہ کون تھا جس نے مقامی افراد کو ریسکیو عمل سے دور رکھا؟
اینکر پرسن فواد احمد لکھتے ہیں، جب کوئی تربیت یافتہ منظم ادارہ ریسکیو کرے گا تو سیفٹی کا خیال سب سے پہلے ہو گا اور رسک فیکٹر کم سے کم رکھا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مقامی افراد اور فوج کی بحث صرف اٹک جیل کے قیدی کی محبت میں ہو رہی ہے۔
لاہور کی لمز یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر تیمور رحمٰن نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے والے نوجوان کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بندہ جو بھی ہے قوم کا ہیرو ہے جس کو نہ کسی تمغے کی لالچ ہے اور نہ کسی پیسے کی۔
ان کے بقول ایسے لوگوں کی وجہ سے ملک چل رہا ہے جو اس دم توڑتے معاشرے میں اُمید کی کرن ہیں۔
اظہر الدین نامی صارف نے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہے بٹگرام کا اصل ہیرو، جس کو میڈیا کبھی نہیں دکھاۓ گا۔
ان کے مطابق اس نوجوان نے اپنی جان پر کھیل کر بچوں کو ریسکیو کیا۔
خیبر پختونخوا اور شمالی علاقوں میں کئی مقامات پر مقامی افراد آمد و رفت کے لیے کیبل کار کی طرز پر بنائی گئی دیسی ساختہ چیئر لفٹ استعمال کرتے ہیں جسے 'ڈولی' بھی کہا جاتا ہے۔
یہ ڈولی دشوار گزار علاقوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماضی میں بھی چیئر لفٹ کے گرنے اور اس کے نتیجے میں اموات کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔