جنوبی امریکی ملک چلی میں قانون ساز شہریوں کے ’ذہنی حقوق‘ کے تحفظ کے لیے آئینی ترمیم متعارف کروا رہے ہیں۔ اس قانون کے تحت کسی بھی فرد کی مرضی کے بغیر ٹیکنالوجی کے استعمال کے تحت اس کی ذہنی استعداد کو ’’کم، زیادہ یا خراب‘‘ کرنے پر پابندی ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ چلی کو ایسی قانون سازی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
یاد رہے کہ امریکی باکس آفس پر خوب کامیاب ہونے والی سائنس فکشن فلم ’انسیپشن' میں ہالی وڈ کے شہرہ آفاق ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان نے لوگوں کو فلم کے موضوع سے ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔
اس فلم کا مرکزی کردار لیونارڈو ڈی کیپریو نے ادا کیا تھا۔ لیونارڈو ڈی کیپریو کو اپنی ٹیم کے ساتھ ایک مرتے ہوئے کامیاب بزنس مین کے وارث کے ذہن میں ایک خیال ڈالنے کا کام دیا جاتا ہے۔ فلم میں تو وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن چلی میں قانون ساز ایسی ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے خائف ہیں۔
چلی کے حزب اختلاف کے سینیٹر گاؤڈی گراڈی، اس مجوزہ قانون کے مصنفین میں سے ہیں، اور نیورو ٹیکنالوجی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ان ٹیکنالوجیز میں کمپیوٹر کے الگوریدھم، بائیونک امپلانٹس اور دوسری ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔ ان کے مطابق یہ ٹیکنالوجی ’’انسانوں سے ان کی اصلیت، ان کی اپنے جسم پر اختیار اور اپنی مرضی کی آزادی ان سے چھین لے گی۔‘‘
انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر یہ ٹیکنالوجی آپ کو پتہ چلنے سے بھی پہلے کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں، آپ کی سوچ کو پڑھ سکتی ہے، تو یہ آپ کے ذہن میں خیالات بھی ڈال سکتی ہے، زندگی سے متعلق ایسی کہانیاں بھی ڈال سکتی ہے جن کا آپ سے تعلق بھی نہیں ہوگا۔ اور آپ کا ذہن اس بات میں تفریق نہیں کر سکے گا کہ یہ آپ کی اپنی یادیں ہیں یا کسی ڈیزائنر کی جانب سے آپ کے ذہن میں ڈال دی گئی ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق متعدد سائینس فکشن فلموں اور ناولز کی وجہ سے قارئین اور ناظرین نیورو ٹیکنالوجی کے خطرناک اثرات سے خوف زدہ ہیں۔ لیکن ادارے کے مطابق ان ٹیکنالوجیز کا مثبت استعمال بھی لوگوں کو دکھایا جا چکا ہے۔
2013 میں سابق صدر اوباما نے BRAIN یعنی برین ریسرچ تھرو ایڈوانس انوویٹو نیورو ٹیکنالوجیز کو فروغ دیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت دماغی بیماریاں، جیسے الزائمر، پارکنسن اور ایپی لیپسی جیسے ذہنی امراض کی وجوہات جاننے پر کام شروع کیا گیا تھا۔
چلی کے سائنس کے وزیر آنڈریس کووی نے اے ایف پی کو بتایا کہ چلی میں جاری یہ بحث سائنسی ترقی کو ایک انتظام کے تحت چلانے کا معاملہ ہے، کیونکہ اس معاملے کی جانب پوری دنیا کی توجہ جا رہی ہے۔‘‘
چلی کے صدر سبیسٹین پنیرا نے پچھلے ہفتے جنوبی امریکی ملکوں کی ایک کانفرنس کے دوران خطے کے دوسرے ملکوں کو بھی دعوت دی کہ وہ اس مسئلے پر قانون متعارف کروائیں۔
چلی میں متعارف کئے جانے والے قانونی بل میں چار امور کی جانب توجہ دی گئی ہے۔ انسانی ذہن کے ڈیٹا کی حفاظت کی ضمانت، نیورو ٹیکنالوجی کے استعمال پر پابندیاں، جن میں انسانی دماغ کو پڑھنے اور اس پر کچھ ’لکھنے‘ پر پابندی شامل ہے، اور اس ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی اور نیورو الگوریدھم کی حدود کا تعین کرنا۔
ہسپانوی سائنسدان رافیل یوسٹے نے، جو نیویارک کی کولمبیا یونی ورسٹی میں اس موضوع کے ماہر ہیں، اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس قسم کی ٹیکنالوجیز اس وقت موجود ہیں۔ اور جو ٹیکنالوجی ابھی بہت ابتدائی مرحلے میں ہیں، وہ بھی دس سال بعد عام دسترس میں ہوں گی۔
اے ایف پی کے مطابق سائنسدانوں نے ایسی ٹیکنالوجیز کے تجربات لیبارٹری میں جانوروں پر کر رکھے ہیں۔
ادارے کے مطابق سائنسدانوں نے چوہوں کے دماغوں میں ایسی اشیا کی تصاویر داخل کیں، جن سے وہ واقف نہیں تھے، اور پھر ان چوہوں کا مشاہدہ کیا، تو انہوں نے ان اشیا کی تشخیص ایسے ہی کی، جیسے وہ انہیں پہلے سے جانتے تھے۔
ہسپانوی سائنسدان کا کہنا ہے کہ اگر آپ چوہوں کے دماغ کے کیمیاوی عمل میں ایسے خیالات ڈال سکتے ہیں، تو آپ لوگوں کے دماغ پر بھی ایسے ہی اثر انداز ہو سکتے ہیں اور ان کے فیصلہ کرنے کے اختیار کو بدل سکتے ہیں۔
مستقبل میں سائنسدان ایسے ’ہائبرڈ‘ انسان بنا سکتے ہیں جن کی سوچنے کی صلاحیتوں کو عام انسانوں سے کہیں زیادہ بڑھایا جا سکتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق اس امر میں خطرہ یہ ہے کہ اگر ایسی ٹیکنالوجیز میں حفاظتی انتظامات اختیار نہ کیے جائیں تو انٹرنیٹ کے ذریعے الگوریدھم ایسے استعمال ہو سکتے ہیں جن سے لوگوں کے خیالات کو چند لوگوں کے مفاد کے لیے بدلا جا سکے۔
رافیل یوسٹے کا کہنا ہے کہ ’’ایسے حالات سے بچنے کے لیے جہاں کچھ لوگوں کے ذہن تو بہت زیادہ ترقی پا جائیں، اور باقی عام انسانوں جیسے ہی ذہن ہوں، ہمیں نیورو ٹیکنالوجیز کا انتظام بالکل آفاقی انصاف کے نظریات کے تحت ہی کرنا ہوگا۔ اور ہمیں انسانی حقوق کے بین الاقوامی ڈیکلریشن کی روح کو دیکھنا ہوگا۔‘‘
یوسٹے نے نیورو ٹیکنالوجی کو مستقبل کا ’’سونامی‘‘ قرار دیا۔
تاہم ان کے مطابق نیورو ٹیکنالوجی جس کے خطرناک نتائج سے سائنس فکشن میں ڈرایا جاتا ہے، اس کے کئی فوائد بھی سامنے آسکتے ہیں۔
ان کے مطابق، نیورو ٹیکنالوجی انسانیت کی نشاة ثانیہ ثابت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت نیورو ٹیکنالوجی سے پارکنسن اور ڈپریشن کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی بہرے لوگ اس کی مدد سے سن سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، خیال کیا جاتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے مستقبل میں پیدائشی اندھے افراد کو دیکھنے میں مدد مل سکتی ہے اور الزائمر کے مریضوں کی یاد داشت کے دماغی خلیوں کو مضبوط کر کے اس بیماری کا علاج کیا جا سکتا ہے۔