امریکی حکومت کی جانب سے کروائی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی ایک نئی لہر آئی ہے جو اس سے پہلے کی مثالوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔
لاس ایلموس نیشنل لیبارٹری کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وائرس کی نئی قسم ابتدائی صورت سے مختلف ہے اور یورپ میں تین ماہ پہلے اس کا پتا چلا تھا۔
یہی تبدیل شدہ وائرس امریکہ کی مشرقی ریاستوں میں پہنچا اور وسط مارچ سے اسی نے دنیا میں زیادہ لوگوں کو بیمار کیا ہے۔
تحقیق کے نتائج لکھنے والے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ویکسین اور دوائیں بنانے والوں کو متنبہ کرنے کی فوری ضرورت ہے، تاکہ وہ وائرس کی نئی قسم کا موثر حل تیار کریں۔
رپورٹ کے مطابق ووہان سے پھیلنے والے وائرس کے مقابلے میں اس کی نئی صورت نے تیزی سے اور زیادہ لوگوں کو متاثر کیا۔ کرونا وائرس سے متاثر ملکوں میں چند ہفتوں کے اندر بس یہی ایک قسم باقی رہ گئی۔
تحقیق سے پتا چلا کہ وائرس کی یہ قسم زیادہ متعدی ہے، لیکن اس کی وجہ کا تعین ابھی باقی ہے۔ یہ وائرس ابتدائی صورت سے زیادہ مہلک نہیں، لیکن اس کے مریضوں پر اس کا حملہ شدید ہوتا ہے۔
سائنس دانوں نے کہا ہے کہ اگر موسم گرم ہونے کے بعد بھی وبا ختم نہیں ہوئی تو خدشہ ہے کہ ایک طرف ویکسین اور دوائیں بنائی جاتی رہیں گی اور دوسری جانب وائرس اپنی صورت بدلتا رہے گا۔
اگر عالمی سائنسٹیفک برادری نئے وائرس کے خطرے کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے کام نہیں کرے گی تو اس سے نمٹنے کے لیے بنائی جانے والی دوائیں زیادہ موثر ثابت نہیں ہوں گی۔
شمالی کیرولائنا کی ڈیوک یونیورسٹی اور برطانیہ کی شفیلڈ یونیورسٹی کے اشتراک سے کی گئی اس تحقیق کے نتائج پر بعض ماہرین نے شک کا اظہار کیا ہے۔
اس امر پر سب میں اتفاق ہے کہ کرونا وائرس کا صورتیں بدلنا حیران کن نہیں اور اس کی مختلف اقسام بنیادی طور پر ایک جیسی ہیں۔ لیکن اس بات پر اختلاف برقرار ہے کہ وائرس کی کسی ایک صورت نے اپنے پھیلاؤ یا ہلاکت خیزی میں کوئی فرق پیدا کیا ہے۔
اب سائنسٹیفک برادری اس تحقیق کا مزید جائزہ لے رہی ہے، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کے نتائج کس حد تک درست ہیں۔