امریکی خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" کی گنتی کے مطابق 24 ستمبر کو حج کے دوران منیٰ میں بھگدڑ مچنے سے کم از کم 1,453 حجاج ہلاک ہو ئے ہیں۔ یہ تعداد سعودی حکام کی جانب سے جاری کیے گئے سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔
سعودی حکومت کے مطابق منیٰ میں 769 افراد ہلاک ہوئے اور اگر ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو 684 مزید افراد بھی ہلاک ہوئے، جس کے بعد مجموعی تعداد 1453 بتائی گئی۔
ہلاک شدگان کی اس تعداد کا حساب 19 ملکوں کے حکام یا سرکاری ذرائع ابلاغ کی جانب سے بتائی گئی ہلاکتوں کی تعداد سے لگایا گیا ہے۔ یہ تعداد صرف ان حجاج کی ہے جو مکہ کے قریب منیٰ کے واقعے میں ہلاک ہوئے۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس واقعے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں مگر منیٰ میں ہونے والے جانی تقصان کے بارے میں ان کے سرکاری اعداد و شمار درست ہیں، جن کے مطابق 769 افراد ہلاک جبکہ 934 زخمی ہوئے۔
اگر ان اعداد و شمار کی سعودی حکام کی طرف سے تصدیق کر دی گئی تو یہ تعداد 1990ء میں سعودی عرب میں منیٰ کے مقام پر بھگدڑ مچنے ہونے والی 1426 ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہو گی۔
"ایسوسی ایٹڈ پریس" کے اعداد و شمار کے مطابق ایران نے کہا ہے کہ اس کے 465 حجاج جبکہ مصر کے 148 اور انڈونیشیا کے 120 حجاج ہلاک ہوئے۔
دیگر ممالک میں بھارت کے 101، نائیجیریا کے 99، پاکستان کے 89، مالی کے 70، بنگلہ دیش کے 63، سینیگال کے 54، بنین کے 51، کیمرون کے 42، ایتھوپیا کے 31، سوڈان کے 30، مراکش کے 27، الجزائر کے 25، گھانا کے 12، چاڈ کے 11، کینیا کے آٹھ جبکہ ترکی کے تین شہری ہلاک ہوئے۔
منیٰ بھگدڑ کے بعد اب بھی سینکڑوں افراد لاپتا ہیں جس سے مرنے والوں کی حتمی تعداد کے بارے میں سوالات باقی ہیں۔
اُدھر فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نےبھی منیٰ میں ہلاکتوں کی تعداد 1200 سے زائد بتائی ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور سردار یوسف نے منیٰ میں 89 پاکستانی شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی 43 پاکستانی لاپتہ ہیں۔
سعودی عرب کے علاقائی حریف ایران نے اس واقعے کی ذمہ داری سعودی عرب کی ’’بدانتظامی‘‘ پر عائد کی ہے۔ ایران نے پانچ روزہ حج کی منصوبہ بندی اور انتظامات کے لیے ایک خودمختار ادارے کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم سعودی حکام نے ایران کے الزام کے جواب میں کہا تھا کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ایران کو اس بارے میں سیاست نہیں کرنی چاہیئے۔