|
اسرائیل کی پارلیمنٹ نے جمعرات کو ایک ایساقانون منظور کیا جس کے تحت ان لوگوں کے رشتے داروں کو جنہوں نے حملےکیےہوں،ملک بدر کیا جا سکتا ہے اور ممکنہ طور پر جنگ زدہ غزہ کی پٹی میں بھیجا جا سکتا ہے۔ اس اقدام نےاقلیتی عربوں کے حقوق کے سر گرم کارکنوں کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔
یہ قانون جو 41 کے مقابلےمیں 61ووٹوں سے منظورہوا ہے، ان حملہ آوروں کے قریبی رشتہ داروں یعنی والدین، شریک حیات، بچوں اور بہن بھائیوں کو اس صورت میں بیس سال تک ملک بدر کرنے کا اختیار دیتا ہے "اگر وہ دہشت گرد حملوں کے منصوبوں کے بارے میں پہلے سے جانتے تھے لیکن انہوں نے ان حملوں کو روکنے کے لیے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش نہیں کی تھی۔"
یہ واضح نہیں ہےکہ آیا یہ قانون مقبوضہ مغربی کنارے میں لاگو ہوگا، جہاں اسرائیل کی پہلے ہی حملہ آوروں کے خاندانی گھروں کو مسمار کرنے کی ایک دیرینہ پالیسی ہے، جسے ناقدین اجتماعی سزا قرار دیتے ہیں۔ فلسطینیوں نے حالیہ برسوں میں اسرائیلیوں کے خلاف چھرا گھونپنے، گولی مارنے اور گاڑیوں سے ٹکرانے جیسے متعدد حملے کیے ہیں۔
قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے اس قانون کو "دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں فیصلہ کن ستون" کے طور پر سراہا ہے۔
بن گویر نے مزید کہا، "آج سے، ہر اس باپ، ماں، بیٹے، بیٹی، بھائی، بہن یا شریک حیات کو جو خاندان کے کسی ایسے فرد سے تعلق بتاتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے جس نے اسرائیل کے شہریوں کو نقصان پہنچایا ہو، ملک بدر کر دیا جائے گا۔"
ملک بدری کی مدت
نئی قانون سازی کے تحت، اسرائیلی شہریوں کو کم از کم سات سال اورزیادہ سے زیادہ 15 سال تک کے لیے ملک بدر کیا جا سکتا ہے، جبکہ عارضی رہائشیوں کو مستقل طور پر ۔۔۔ مثلاً مشرقی یروشلم کے بہت سے فلسطینیوں کو 10 سے 20 سال کے درمیان تک ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
وزیر داخلہ کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گا کہ وہ دہشت گردوں کے خاندان کے ان افراد کو ملک بدر کردیں جو حملے کی حمایت کا اظہار کرتے ہیں یا اس کارروائی کے لیے یا حملے میں ملوث کسی بھی عسکریت پسند گروپ کی تعریف یا حوصلہ افزائی کے الفاظ شائع کرتے ہیں۔
ملک بدری کا مقام
اس قانون میں جسے قانون ساز الموگ کوہن نے پیش کیا ، یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے لوگوں کو کہاں بھیجا جائے گا، لیکن انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں ملک بدر کر کے غزہ بھیجا جائے گا ، جہاں اسرائیل فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے ساتھ جنگ میں ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل کے غزہ اور لبنان میں نئےمہلک فضائی حملے، درجنوں ہلاکیہ فلسطینیوں کے خلاف قانونی کریک ڈاؤن میں خطرناک اضافہ ہے: عدالہ
اسرائیل میں عرب اقلیتوں کے حقوق کے ایک علمبردار گروپ عدالہ نے نئے قانون کو " فلسطینیوں کے حقوق پر انسداد دہشت گردی کی آڑ میں کیے جانےوالےاسرائیل کےقانونی کریک ڈاؤن میں خطرناک اضافہ قرار دیا۔
گروپ نے ایک بیان میں کہا، "یہ اقدامات ریاست کو پورے خاندانوں کی ملک بدری کا اختیار دیتے ہوئےفلسطینیوں کو اجتماعی طور پر سزا دینےکا اختیار دیے ہیں۔
عدالہ کی قانونی ڈائریکٹر، سہاد بشارا نے کہا کہ تنظیم کاارادہ ہے کہ وہ اس قانون کے خلاف اسرائیل کی سپریم کورٹ کے ذریعے، اس دلیل کے ساتھ کہ یہ غیر آئینی ہے، یا جیسے جیسے مقدمات سامنے آتے ہیں انفرادی بنیاد پر لڑے گی۔
انہوں نے کہا "یہ قانون انتہائی پریشان کن ہے۔"
انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان برسوں سے اس قانون سازی پر زور دیتے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ قانون اسرائیل کے فلسطینی شہریوں اور الحاق شدہ مشرقی یروشلم کے رہائشیوں کو اسرائیلیوں کے خلاف حملے کرنے سے روکے گا۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔