شاہراہ فیصل پر اب عام آدمی بھی ’شاہی انداز‘ میں سفر کر سکے گا۔ ایسا صرف لگتا نہیں بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات بھی اٹھائے جانے لگے ہیں۔
پچھلے ہفتے ’وی او اے‘ نے خبر دی تھی کہ اس شاہراہ کے لئے ایک خصوصی فورس بنائی جا رہی ہے جو ٹریفک کی روانی کو ہر ممکن بہتر بنائے گی اور دن کے 16 گھنٹے چاک و چوبند ٹریفک پولیس کے اہلکار ڈیوٹی پر موجود ہوں گے۔
اب اسی شاہراہ کے حوالے سے تازہ خبر یہ ہے کہ اس سڑک پر ٹریفک کی روانی اور تیز رفتاری میں کوئی خلل نہ پڑے اس لئے اس پر چلنے والی سست رفتار گاڑیوں کے سفر پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔
ڈی آئی جی ٹریفک امیر شیخ کا کہنا ہے کہ پیر سے رکشا، لوڈنگ گاڑیاں، واٹر ٹینکر اور موٹر سائیکل کی ٹرپل سواری پر پابندی ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ شہر میں ہر روز ایک ہزار نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن ہو رہی ہے جس سے ٹریفک کا دباؤ شہر بھر کی شاہراہوں پر پڑ رہا ہے۔
امیر شیخ کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاہراہ فیصل پر بسوں، موٹرسائیکلوں اور دیگر گاڑیوں کے لیے الگ لینز بنائی جائیں گے۔
ڈی آئی جی کا کہنا ہے یہ اقدام راتوں رات نہیں اٹھایا گیا بلکہ باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت اٹھایا گیا۔ ٹریفک پولیس پچھلے دو ماہ سے اس بات کا جائزہ لے رہی تھی کہ آیا وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتا ہے اور جن کے سبب شہر کی اہم ترین اور سب سے بڑی و چوڑی شاہراہ جام ہو جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر رکشا ڈرائیوز خاص کر چنچی رکشا والے ٹریفک قوانین کی پابندی نہیں کرتے جس کے سبب ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ یہی حال لوڈنگ گاڑیوں اور سوزوکیوں کا بھی ہے جو اوور ویٹ ہونے کے سبب سست پڑجاتی ہیں جس سے پیچھے آنے والا ٹریفک بھی بری طرح جام ہونے لگتا ہے۔
ڈی آئی جی کا یہ کہنا بھی تھا کہ شاہراہ پر 26ستمبر سے ایک نیا قانون نافذ ہونے جارہا ہے جس کے تحت تین افراد ایک موٹر سائیکل پر سفر نہیں کرسکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ سواریاں سڑک حادثے کا باعث بنتی ہیں۔
’شاہراہ فیصل‘ کے ایک سرے پر ائرپورٹ بھی واقع ہے اور ملک کی تمام سیاسی اور غیرسیاسی و عسکری شخصیات اسی روڈ سے شہر میں داخل ہوتی اور دوسرے شہروں کے لئے روانہ ہوتی ہیں۔ لہذا، یہ وی آئی پی شاہراہ شمار ہوتی ہے، چنانچہ اس پر ٹریفک کے دباؤ پر کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہی سبب ہے کہ تریفک پولیس اس شاہراہ کے لئے نئے قانون کے ساتھ نئے منصوبے ترتیب دے رہی ہے۔
’عوامی نظریہ‘
تاہم، اس مجوزہ قانون کی مخالفت میں بھی ابھی سے مختلف نظریات سامنے آنے لگے ہیں۔ اس شاہراہ کو روزانہ کی بنیادی پر استعمال کرنے والوں کے ’عوامی نظریئے‘ کی بات کریں تو متعدد افراد نے وائس آف امریکہ سےتبادلہ خیال میں کہا کہ’’ عملاً ایسا ہونا بہت سے نئے مسائل کو جنم دے گا کیوں کہ شاہراہ کے ارد گرد انتہائی گنجان اور سینکڑوں علاقے ہیں جہاں لاکھوں لوگ رہتے ہیں۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ ’’رکشا اور چنچی عوامی سواری ہے اگر بند کردی گئی تو اس شاہراہ کا متبادل کوئی اور نہیں۔ ایک اسٹاپ سے تین چار اسٹاپس کے فاصلے پر جانے والے کیا کریں گے؟ یہاں تو بسیں بھی تقریباً ناپید ہیں، ٹیکسیاں کب کی بند ہوگئیں، بگیاں، گھوڑاگاڑی کچھ بھی نہیں۔۔۔عوام کہاں جائے گی؟ لاکھوں افراد کو پریشان کرنا مقصود ہو تو اس منصوبے پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ یہ شاہراہ شہر کی شہ رگ ہے، غلط منصوبے وہ طوفان اٹھائیں گے کہ کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گاْ‘‘۔